حال ہی میں جاری ہونے والی ”پائیدار ترقیاتی رپورٹ 2023ئ“ میں اَقوام متحدہ کے پائیدار ترقیاتی اہداف کو شامل نہیں کیا گیا۔ رپورٹ کے مطابق پاکستان کی کارکردگی یہ ہے کہ مذکورہ عالمی ترقیاتی حکمت عملی کے 30 فیصد اہداف ایسے ہیں جن پر کوئی پیش رفت نہیں ہوئی یا اُن پر کچھ پیشرفت کرنے کے بعد ہاتھ روک لیا گیا۔ دنیا بھر میں اِس بات پر توجہ دی جا رہی ہے کہ عوام کو مناسب پناہ گاہیں‘ مناسب خوراک اور اُن کی فلاح و بہبود کو یقینی بنایا جائے جبکہ پاکستان کی کارکردگی اِن تینوں شعبوں میں سست رہی ہے اور المیہ اپنی جگہ ہے کہ حکومت جب کبھی بھی عام آدمی کی زندگی میں بہتری لانے کی کوشش کرتی ہے تو اِس کے وسائل سکڑ جاتے ہیں! حکومتی اعدادوشمار کے مطابق پاکستان میں 5 کروڑ 75 لاکھ افراد کی یومیہ آمدنی 2.15 ڈالر (590 روپے) یومیہ سے کم ہے۔ ایسے افراد کو غربت کی سطح (پاورٹی لائن) سے نیچے دکھایا جاتا ہے اور یہ انتہائی غربت میں زندگی بسر کر رہے ہیں۔ جب کہ دیگر ذرائع کا کہنا ہے کہ پاکستان کی نصف سے زیادہ آبادی انتہائی غربت کا شکار ہے۔ توجہ طلب ہے کہ دنیا کی آٹھ ارب کل آبادی میں سے ایک ارب افراد سے زیادہ لوگ سہولیات کے بغیر کچی بستیوں میں رہتے ہیں۔ دریں اثنا پاکستان کے کئی علاقوں میں کورونا وبا کی وجہ سے بھی تعلیم کا حرج ہوا ہے اور کہا جا رہا ہے کہ درس وتدریس کئی دہائیاں پیچھے چلی گئی ہے۔ سال 2030ءمیں دنیا کی تصویر واضح طور پر مایوس کن ہے‘ خاص طور پر جب اس کا موازنہ 2015ءسے کیا جاتا ہے۔ دنیا پہلے ہی جانتی ہے کہ بہت سے ممالک میں بچوں کو اُن کی کم سے کم جسمانی ضرورت کے مطابق خوراک بھی نہیں مل رہی اور غربت کی وجہ سے گھریلو تشدد اور ہر قسم کے جرائم میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اگر غربت کی وجہ سے بچوں کی جسمانی نشوونما تک متاثر ہو رہی ہو تو یہ ایک سنگین مسئلہ ہے ۔ سوال یہ بھی ہے کہ کیا کوئی ملک غربت کی سطح کو کم کرنے اور اربوں لوگوں کے معیار زندگی بہتر بنانے جیسے چیلنج کا مقابلہ کر سکتا ہے؟ یہ ہر لحاظ سے ناقابل قبول ہے کہ بہت سے لوگ ایسے حالات میں رہتے ہیں کہ اُن کی زندگی مشکل میں ہے اور وہ اپنی محتاجی و بے بسی کے ساتھ زندہ رہنے کے عادی ہو چکے ہیں۔ ظاہر ہے کہ جہاں آمدنی و اخراجات میں فرق ہو اور یہ فرق ہر دن بڑھ بھی رہا ہو تو وہاں کی صورت حال کی منظرکشی کرنا کسی بھی صورت مشکل نہیں ہے۔ اقوام متحدہ تنظیم نے دنیا کے سامنے کے پائیدار ترقیاتی اہداف رکھے ہیں جو ایک قابل ستائش کوشش ہے اور اِس سے زیادہ منصفانہ کوئی دوسرا اقدام نہیں ہو سکتا لیکن حقیقت یہ ہے کہ اِس تنظیم کو اہداف حاصل کرنے اور زمینی حقائق تبدیل کرنے کا راستہ بھی خود ہی تلاش کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ اب تک کے تجربات سے ثابت ہوا ہے کہ ممالک اِس سلسلے میں خاطرخواہ دلچسپی نہیں لے رہے۔ اقوام متحدہ طاقتور ادارہ ہے لیکن اگر مقاصد حاصل کرنا ہیں تو اِسے رکن ممالک کے درمیان ہم آہنگی پیدا کرنے کے لئے کام کرنا ہوگا۔ رپورٹ سے پتہ چلتا ہے کہ دوہزار اکیس تک 133ممالک ایسے پائے گئے جنہوں نے پائیدار ترقیاتی اہداف کے مطابق عمل کرتے ہوئے کم عمر بچوں کی اموات کا ہدف حاصل کیا۔ اعلیٰ ٹیکنالوجی کی صنعتوں میں زبردست شرح نمو کا مظاہرہ‘ ترقی پذیر ممالک کی قابل تجدید توانائی پیدا کرنے کی ریکارڈ صلاحیت اور انٹرنیٹ استعمال کرنے والے افراد کی تعداد میں ساٹھ فیصد سالانہ کے تناسب سے اضافہ اپنی جگہ اہم ہے اور اِن سے واضح ہو رہا ہے کہ دنیا ایک بہتر مستقبل کی تلاش میں ہے اور بہت سے ممالک اپنے عوام کے لئے بہتر مستقبل کا حصول ممکن بنا چکے ہیں۔ اگر اقوام متحدہ کے تجویز کردہ اہداف کو حاصل کرنے کے لئے عملی کوششیں کی جائیں تو پاکستان میں بھی کروڑوں لوگوں کو غربت سے نکالا جا سکتا ہے اور بقول اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کہ دنیا خطرے میں ہے۔ سوال یہ ہے کہ اقوام متحدہ کے رکن ممالک اس خطرے کو ختم کرنے اور تمام لوگوں کو پرسہولت زندگی دینے کے لئے کیا کچھ کر سکتے ہیں اور کیا اقوام متحدہ کے ترقی یافتہ رکن ممالک ترقی پذیر ممالک کی مدد کرنا پسند کرتے ہیں؟