تحمل و برداشت کی ضرورت

محرم الحرام کی مناسبت سے آ ئیے آج ہم اس کالم میں اسلام کے چوتھے خلیفہ کے فرامین سے اپنی تحریر کا آغاز کریں ۔ اس ضمن میں چند فرامین حسب ذیل ہیںقناعت وہ سرمایہ ہے جو ختم ہونے میں نہیں آتا ،کمزور کا یہی زور چلتا ہے کہ وہ پیٹھ پیچھے برائی کرے،حکومت لوگوں کیلئے آزمائش کا میدان ہے،کسی بندے کے لئے مناسب نہیں کہ وہ دو چیزوں پر بھروسہ کرے ایک صحت اور دوسری دولت ،کیونکہ ابھی تم کسی کو تندرست دیکھ رہے تھے کہ وہ دیکھتے ہی دیکھتے بیمار پڑ جاتا ہے ، اور ابھی تم کسی کو دولتمند دیکھ رہے تھے کہ وہ فقیر اور نادار ہو جاتا ہے،دل آنکھوں کا صحیفہ ہے،فخر سر بلندی کو چھوڑو اور قبر کوہمیشہ یاد رکھو،سب سے بڑی دولت مندی یہ ہے کہ دوسرے کے ہاتھ میں جو ہے اس کی آس نہ رکھی جائے ۔ہر شخص کے مال میں دو حصہ دارہوتے ہیں ایک وارث اور دوسرے حوادث ، بوڑھے کی راے مجھے جوان کی ہمت سے سے زیادہ پسند ہے،بہترین دولت مندی یہ ہے کہ تمناﺅں کو ترک کر دیا جائے۔یہ انسان تعجب کے قابل ہے کہ وہ چربی سے دیکھتا ہے، گوشت کے لوتھڑے سے بولتا ہے اور ہڈی سے سنتا ہے اور اک سوراخ سے سانس لیتا ہے ،ان چند ابتدائی شہہ پاروں کے بعد ذکر کرتے ہیں کچھ دیگرامور کا، یہ امر بہت خوش آئند ہ کہ روس اور پاکستان کے درمیان دو طرفہ بنیادوں پر تجارت شروع ہوگئی ہے روس سے تجارتی سامان سڑک کے ذریعے تاجکستان اور ازبکستان کے راستے پاکستان پہنچنا ایک اہم پیش رفت ہے ۔ ایک اہم حکومتی عہدیدار کے بیان سے یہ تصدیق بہر حال ہوگئی ہے کہ آئندہ انتخابات پرانی مردم شماری پرہی کرائے جائیں گے کیونکہ نئی مردم شماری کے حوالے سے کئی حلقوں کی طرف سے اعتراضات سامنے آئے ہیں۔جہاں تک مردم شماری کی بات ہے تو اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ اگر پلاننگ کمیشن آف پاکستان کے پاس جب ملک کی آبادی کے تازہ ترین اعداد و شمار نہیں ہوتے تو وہ ملک کے لئے درست ترقیاتی منصوبے تشکیل نہیں دے سکتا ، یعنی ترقی کے سفر کو جاری رکھنے میں مردم شماری کا اہم کردار ہے ۔ آج اس ملک کے سیاسی مبصرین بجا طور پر محسوس کر رہے ہیں کہ سیاسی پارٹیوں کے قائدین پر اپنے سیاسی ورکرز کی تربیت کی طرف خاطر خواہ توجہ دینے کی بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے اور ایسے حالات میں کہ جب ملک میں انتخابی عمل چند مہینے دور ہے سیاسی ماحول کو خوشگوار بنانا اشد ضروری ہے ۔ ایک دوسرے کے احترام کو ملحوظ رکھنا ضروری ہے ۔اسی طرح مخالف سیاسی پارٹیوں کے قائدین کا تقریروں یا تحریروں میں تمسخر اڑانا بھی نہیں چاہئے کہ اس سے ان کی دل آ زاری ہوتی ہے اور ملک میں سیاسی مفاہمت کے بجائے سیاسی مخاصمت کی فضا پیدا ہوتی ہے۔ تحریر و تقریر کی آزادی بلا شبہ انسان کا بنیادی حق تو ہے پر اس کی بھی حدود ہیں۔