ہم لوگ بڑی تیزی کے ساتھ صنعتی ترقی میں آگے جا رہے ہیں ۔پھر اس دوران میں ڈیجیٹل دنیا اور موبائل او رکمپیوٹر اور جانے کیا کیا ہے جن کوہم تیزی سے اپنا رہے ہیں۔پھر کمال یہ ہے کہ خوش ہیں ۔سہولیات اتنی ہو گئی ہیں کہ ہر مسئلے میں آسانی کے قائل ہیں اور آسانیاں چاہتے ہیں۔ یہ جدید معاشرے کی نشانی ہے۔ ہمارا معاشرہ خواہ پشاو رمیں ہو یا ملک کے کسی بھی شہر میں نئے سے نیا ہورہا ہے ۔پھر ہم اس میں اس قدر منہمک ہیں کہ اس انہماک کو گرفتاری بھی نہیں سمجھتے ۔زنجیر پا¶ں میں ہو اس کی لمبائی حد سے زیادہ زیادہ ہو جائے تو ہم شاید یہ سمجھیں کہ اب ہم آزاد ہیں او رکہیں بھی جا سکتے ہیں۔مگر ہمیں اپنے پا¶ں نہیں دیکھنا کہ یہ جہاں بھی جائیں یونہی بندھے رہیں گے ۔۔ ہم نئی دنیاکے نئے زمانے میں اتنا کھو گئے ہیں کہ ہمیں کسی اور طرف کا کوئی ہوش نہیں ہے ۔حالانکہ یہی آزادی اور ترقی تو دنیا کے اور ممالک کو بھی حاصل ہے ۔مگر انھوں نے اس میں ایک پیمانہ مقرر کر رکھا ہے۔ان کے اگرگا¶ں بھی ہیں تو وہ بھی ایک خوبصورت انداز سے ہیں۔ ان ترقی یافتہ لوگوں کے گا¶ں بھی اتنی سہولیات رکھتے ہیں کہ ہر چیز ایک قاعدہ اور قانون سے ہے ۔ مگر ہمارے ہاں قاعدہ کہاں‘ قانونیت کیا ہے اور اس کے مدمقابل لا قانونیت کیا ہے۔اب ہم مشینی دور میں مکمل طور داخل ہو چکے ہیں ۔ اتنے مشینی کہ ہم خود روبوٹ بن چکے ہیں کہ جن کی سوچ اور سمجھ بھی مشینی انداز سے ہے ۔ہم مشینی انداز سے دو اور دو چا رکے قائل ہیں ۔حساب ہمیں خوب آتا ہے۔کس نے کتنے دینے ہیں کس سے کتنے لینے ہیں کس تاریخ کو لینے ہیں۔ہم اپنے جذبات و احساست کو ترک کر چکے ہیں ۔ہم اگر دوسرے کی ضرورت کو دیکھتے ہیں تو اول ہمیں اپنی بچت سامنے آتی ہے کہ اگر اس کو دیا تو ہمارے پس انداز کئے ہوئے خزانے میں رتی برابر کی کمی آ جائے گی۔سو ہم دوسرے پراس مہربانی سے پیچھے ہٹ جاتے ہیں ۔ یہی اسی مصنوعی مشینی دور کی دین ہے ۔مگر ہمارے ہاں کچھ اور ہی نقشہ ہے ۔ کوئی گرے گا تو اٹھانے والے مانا کہ آئیں گے مگر کم ہی آئیں گے او رتماش بین زیادہ ہو ںگے کوئی گھر جل رہاہوگا تو اس کی باہر سے شعلے اگلتی لال زبانیں دیکھیں گے مگر بجھانے کی کوشش میں کم لوگ آگے بڑھیں گے زیادہ تر کا انحصار ریسکیو پارٹی پر ہوگا ۔”بھیڑ لگ جاتی ہے جلتے ہوئے گھر کے باہر ۔ دیکھنا یہ ہے کہ آئے ہیں بجھانے کتنے ۔ میں گرا تھا تو بہت لوگ رکے تھے لیکن ۔دیکھنا یہ تھا کہ آئے ہیں اٹھانے کتنے “۔ یہ رویوں میں جو تبدیلی آئی ہے ۔ اس میں تعلیم کا اہم کردار ہے ،ہم تعلیم کے تو بہت قدردان ہیں ۔مگر تعلیم سے جو عمل کیا جاتا ہے اس سے ناواقف ہیں۔اس لئے عید کو آج گزرے گئے ہفتوں ہو چکے ہیں مگر بازارویسے کے ویسے بند ہیں اور یار لوگ کاغان ناران اشو اتروڑ کالام سوات نتھیاگلی کوزا گلی او رمری وغیرہ او رجانے کہاں کہاں پھررہے ہیں۔مری میں تو دو ایک دن پہلے ہزاروں گاڑیاں جمع ہوگئی تھیں ۔اس حد تک مزید گاڑیوں کا داخلہ بند کر دیاگیا تھا۔ پھر کہتے ہیں کہ مہنگائی ہے اور ملک روپے پیسے کے لحاظ سے کمزور ہے۔ جب تک جیبوں میں بھرے ہرے بھرے لال پیلے نوٹ ہیں تو یہ لوگ اپنے شہر کو واپس ہی نہیں آرہے ۔ پھر آئیںگے تو مہنگائی کی شکایت اور اشیاءکے نرخ جو آسمان پر چڑھ گئے ہیں ان کی فریاد کریں گے ۔ہم لوگ ان قدرتی او رپہاڑی مقامات پر آخر کیوں جاتے ہیں۔ اس لئے کہ مشینی دور کی اس زندگی میں اتنی بوریت آ چکی ہے کہ اب ہم تبدیلی چاہتے ہیں۔اگر ہمارا رجحان اب گا¶ں او رپرگنوں کی طرف ہو چکا ہے تو یہ فطری ہے ۔ ہمیں سڑک کی صنعتی زندگی سے الرجی ہو چکی ہے۔ہم فطرت کے زیادہ قریب جا کر اپنے آپ کو اپنے من کو دل و دماغ کو سکون دینا چاہتے ہیں۔