گفتار کا معیار 

 یہ بات ہر سیاسی مبصر نے محسوس کی ہے کہ ہمار ے ایوانوں میں گفتار کا معیار وہ نہیں رہا جو کسی وقت تھا ، ایک دور تھا کہ جب پارلیمنٹ کے ارکان جب اس کے فلور پر تقریر کرتے تھے تو ان کے الفاظ بہت نپے تلے اور دلنشین ہوتے، سامعین کو پتہ چلتا تھا کہ ان کی گفتار میں کس قدر گہرائی ہے اور ان کا کتابوں کا مطالعہ کس قدر وسیع ہے۔ میاں ممتاز دولتانہ ،ذوالفقار علی بھٹو ،مولانا مودودی، محمود علی قصوری ،خان عبدالولی خان اور حسین شہید سہروردی جیسے پارلیمنٹیرینز کی ذاتی لائبریریوں کے تذکرے ہوتے تھے جو ہزاروں کتابوں پرمشتمل تھیں ۔ یہ لیڈر ہمیشہ ایشوز پر بات کرتے تھے اور ایک دوسرے پر ذاتی حملے کرنے سے گریز کرتے تھے۔ افسوس کہ ان کے سیاسی منظرنامے سے چلے جانے کے بعد ماحول میں تبدلی آتی گئی۔ اگر چہ اب بھی کئی ایسی شخصیات موجود ہیں جو پارلیمینٹ میں رکھ رکھاﺅ کے قائل ہیں تاہم زیادہ تر ایک دوسرے پر تنقید کے ذریعے ہی وقت گزارتے ہیں۔اس طولانی جملہ معترضہ کے بعد ایک نظر اگر چند تازہ ترین عالمی اور قومی امور پر ڈال لی جاے تو کوئی مضائقہ نہیں ۔ سننے میں آرہا ہے کہ انتخابات پرانی مردم شماری کے مطابق ہی ہوں گے تو آخر کیا وجہ ہے کہ لاکھ کوششوں اور کثیر اخراجات کے باجود مردم شماری کاکام بروقت مکمل نہیں ہوسکا۔ اور اگر یہ کام مکمل ہو چکا ہے تو پھر اس سے فائدہ کیوں نہیں اٹھایا جارہا ۔وطن عزیز میں امن و امان کی صورتحال اگرچہ ماضی کے مقابلے میں بہت بہتر ہے تاہم اب بھی کچھ واقعات سامنے آئے ہیںا فغانستان کے ساتھ متصل قبائلی علاقہ جات میں جو دہشت گردی کے واقعات سامنے آرہے ہیں تو اس کا براہ راست تعلق افغانستان کے حالات سے ہی لگتا ہے۔ اس ضمن میں افغان حکومت کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اپنے معاہدات کی پاسداری کرتے ہوئے وہاں پر ایسی تنظیموںکو نہ پناہ لینے دے جو پاکستان میں دہشت گردی میں ملوث ہوں۔یہ امر خوش آئند ہے کہ برطانیہ آئندہ مالی سال میں پاکستان کی مالی امداد میں تین گنااضافہ کر رہا ہے پر ضرورت اس بات کی ہے کہ امدادی رقم کو کسی حالت میں بھی غیر ترقیاتی کاموں پر صرف نہ کیا جائے۔چین بھی ہر قدم پر پاکستان کی امداد میں مصروف ہے اس کے تعاون کی تازہ ترین مثال یہ ہے کہ اس نے پاکستان میں ایک اور اٹیمی بجلی گھرپر کام شروع کر دیا ہے جو چشمہ جوہری پلانٹ میں لگے گا۔ چین بلا شبہ پاکستان کا ایک بہت ہی با اعتماد اور ہر مشکل میں کام آنے والا دوست ملک ہے اور یہ پاکستان کی خوش قسمتی ہے کہ اسے چین کا ساتھ حاصل ہے ‘ چین کی روز افزوں ترقی ہمارے لئے ایک بہترین مثال ہے کہ کس طرح کم وقت میں چینی قیادت نے اپنی دانشمندانہ پالیسیوں کے ذریعے آبادی کے ایک بڑے حصے کو غربت سے نکال کر خوشحال اور آسودہ بنا دیا ہے ۔ چین کے حکمران جن دنوں اپنے ملک کے عوام کو غربت کی لکیر سے اوپر لانے میں مصروف عمل تھے تو ان دنوں ہر سطح پر وہ اپنے غیر ضروری اخراجات میں حد درجہ کفایت شعاری اور قناعت کا مظاہرہ کرتے تھے حتی کہ پیپلز ہال بیجنگ میں جو بھی سرکاری فنکشن ہوتا یا کابینہ کی میٹنگ ہوتی تو ان میں شامل شرکاءکی صرف بغیر چینی کے سبز چائے سے خاطر تواضع کی جاتی۔ اس ضمن میںمحمد علی جناح سے متعلق بھی ایک قصہ سن لیجئے جو ان کے اے ڈی سی ADCنے لکھا ہے۔ گورنر جنرل ہاﺅس میں کابینہ کی میٹنگ ہونا تھی اس سے ایک دن پہلے جب ان سے اے ڈی سی نے پوچھا کہ سر کل کی کابینہ کی میٹنگ میں شرکا کے لئے کافی کا بندوبست کیا جائے یا چائے کا تو بانی پاکستان نے جواب دیا ۔کہ کیا شرکاءگھر سے ناشتہ کر کے نہیں آئیںگے اس کے بعد جب بھی گورنر جنرل ہاﺅس میں کوئی سرکاری تقریب منعقد ہوتی اس میں شرکا کے سامنے سادہ پانی رکھا جاتا۔