تاجر برادری نے بجلی کی قیمتوں میں قریب پانچ روپے فی یونٹ اضافے پر تشویش اور پریشانی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اِس اقدام سے مہنگائی کی شرح میں اضافہ ہوگا۔ کاروباری اور صنعتی سرگرمیوں کی رفتار سست ہوگی جبکہ گھریلو صارفین اپنی آمدنی کا بڑا حصہ مختلف یوٹیلٹی بلز کی ادائیگی پر خرچ کر رہے ہیں اور فی یونٹ بجلی پچیس روپے سے قریب تیس روپے کرنا متوسط طبقات کی قوت خرید کو مزید کم کر دے گی! تاجروں کے مطابق پاکستان کے معاشی مسائل کا حل معیشت کی سست روی میں نہیں بلکہ تیزی میں ہے اور اگر حکومت صنعتی اور کاروباری سرگرمیوں کے فروغ کے لئے اقدامات کرے تو اِس سے معاشی مسائل حل ہوتے چلے جائیں گے لیکن اگر بجلی و گیس اور پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں بلند رہیں تو اِس سے معاشی مسائل کی شدت میں کمی نہیں آئے گی بلکہ اضافہ ہوگا۔ لائق توجہ ہے کہ کاروباری اداروں کو اِس بات پر تشویش ہے کہ بجلی کی قیمتوں میں حالیہ اضافے سے اشیا اور خدمات سمیت پیداواری لاگت میں اضافہ ہوگا‘ جس کے بعد عام آدمی کے لئے معاشی مشکلات میں اضافہ ہو گا جبکہ اُسے توقع تھی کہ اُسے بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کی جانب سے قرض کی قسط ملنے کے بعد ریلیف دیا جائے گا۔پاکستان کے جاری اخراجات اور زرمبادلہ کے ذخائر کے درمیان توازن برقرار رکھنا مشکل ہو رہا ہے۔ ادائیگیوں کے عدم توازن کی وجہ سے پیدا ہونے والا بحران‘ توانائی کے شعبے میں گردشی قرض اور زیادہ قیمتیں جبکہ افراط زر کی وجہ سے معیشت مشکلات کے ایک ایسے دور سے گزر رہی ہے جس پر مشکل سے زیادہ غیریقینی جیسے خطرات منڈلا رہے ہیں۔ کئی صنعتیں صرف اِس وجہ سے بند ہو گئی ہیں کیونکہ وہ اپنے جاری اخراجات پورے نہیں کر سکتیں اور اِسے مجبوراً اپنی پیداوار میں کمی کرنا پڑ رہی ہے۔ آئی ایم ایف کی جانب سے بجلی کے نرخوں (ٹیرف) میں اضافے کے بعد مینوفیکچرنگ کے شعبے کی متوقع بحالی بھی مستقبل قریب میں ناممکن دکھائی دے رہی ہے!حکومت کو 2 طرح کی پریشانیاں لاحق ہیں۔ پہلی پریشانی یہ ہے کہ ’آئی ایم ایف‘ سے جو 3 ارب ڈالر کا قرض ملا ہے اُس کے ساتھ جڑی شرائط پوری کرنا ہیں جیسا کہ بجلی و گیس کے نرخوں میں اضافہ کرنا ہے تاکہ حکومت کی آمدنی میں اضافہ ہو اور پاکستان کے ذمے واجب الادا¿ قرضوں کی ادائیگی ممکن بنائی جا سکے۔ دوسری پریشانی یہ ہے کہ معاشی ترقی اور روزگار کے نئے مواقع پیدا کرنے کے ساتھ ملازمتی مواقعوں میں کمی (بیروزگاری) روکنے کے لئے صنعتی سرگرمیوں کی بحال اور اِن میں اضافہ کرنا ہے لیکن حکومت کسی بھی شعبے کو رعایت (سبسڈی) نہیں دے سکتی اور نہ ہی ٹیکسوں سے چھوٹ ممکن ہے۔رواں مالی سال صفر اعشاریہ چار فیصد پرائمری بجٹ سرپلس پیدا کرنے کے لئے سٹینڈ بائی انتظامات کی شرائط نے مالیاتی لچک کو مزید محدود کر دیا ہے اور ساتھ ہی بجلی کے شعبے میں گردشی قرضوں کو بڑھنے سے روکنے کے لئے اقدامات بھی کرنا ہیں کیونکہ یہ نقصانات قومی خزانے سے ادا کرنا ممکن نہیں رہا ۔سوال یہ ہے کہ حکومت کے پاس اِس وقت معاشی بہتری کے لئے کون کون سے آپشنز موجود ہیں؟ اگر ترجیحات طے کی جائیں تو سب سے پہلے بجلی و گیس کا گردشی قرض ختم کیا جانا چاہئے۔ سرکاری اداروں کا مالی خسارے کم کرنے اور ٹیکس دہندگان کی تعداد میں اضافہ کرتے ہوئے کم آمدنی سے تعلق رکھنے والوں کو ٹیکسوں میں چھوٹ ملنی چاہئے۔ آئی ایم ایف سے معاشی اصلاحات کے نام پر جو قرض ملا ہے اُس کے ساتھ ملنے والا ریلیف معاشی بہتری کا شاید آخری موقع ہے جس سے بھرپور فائدہ اُٹھایا جانا چاہئے۔حکومت نے معاشی بحالی کے لئے جو منصوبہ بندی کی تھی اس کے اثرات سامنے آنے لگے ہیں۔