برستی آگ جو باراں کی آرزو کرتے

موسم کی شدت عروج پر ہے ۔ابھی تو پشکال کو ڈیرہ لگائے تین دن ہوئے ہیں۔ پھر یہ مہینہ ڈیرہ جمائے گا تب یہ معاملہ اوراوکھا ہوتا جائے گا۔ پھراسی پر بس نہیں آگے بھادوں بھی لگ بھگ اسی طرز کا تپش و حرارت برسانے والا موسم ہے ۔ہاںایسے میں کہ درو دیوار بھی پسینے میں نہا رہے ہوں اور بندہ خود اپنے پسینوں میں ڈوبا ڈوب ہو تو بتلائیں کہ اے سی سے نکل کر کہاں جانا ہوگا۔ پھر اے سی یا تو گلیات کے پہاڑی علاقے جہاں جا کر اس گرمی کے موسم کو شکست سے دوچار کرنا ہوگا ۔وگرنہ تو ہر انگریزی کی پندرہ کو ہندی مہینہ کی پہلی تاریخ ہوتی ہے ۔سو اب تو پشکال کا پورا مہینہ باقی ہے اور پھر بھادوں بھی قطار میں کھڑا ہے۔مراد یہ ہوئی کہ پکے پکے گرمی کے دو ماہ ابھی ہمارے جسم وجاں کو جلانے کو باقی ہیں ۔ سردی تو پندرہ ستمبر سے جا کر شروع ہوگی۔ہاں قدرت کی مہربانی ہوجائے تو اس مہینے میں جہاں پورے ملک میں بارشوں کا مون سون لگا ہوا ہے ۔ہمارا پشاور چونکہ موسمی لحاظ ہے مون سون کی رینج میں نہیں مگر یہاں بھی دو چار چھینٹے پڑ جائیں تو چلو دو ایک دن اچھے گزر جائیں ۔وگرنہ تو رُت جو بدلی ہے اس نے وہ قیامت ڈھا دی ہے کہ پنکھے کے نیچے سے ذرا ہٹو تو بدن پسینے میں تر بہ تر ہو جائے۔پھر پنکھے کے نیچے بیٹھ کر بھی پسینے اگر آتے ہوں تو بندہ کہاں کی راہِ فرار اختیار کرے ۔اگر معلوم نہ ہو کہ یہ پشکال کا مہینہ ہے تو چیونٹیوں سے بھی اندازہ ہو جاتا ہے کہ یہ مہینہ کہیں پشکال تو نہیں کیونکہ چیونٹیوں کے پر نکل آتے ہیں اور وہ زمین سے اڑ کر بدن پراور کمرے میں یہاں وہاں گھومتی پھرتی ہیں۔پشکال اصل میں اسی مہینے کو پشتو میں کہتے ہیں ۔جس کو اردو میں ساون کہا جاتا ہے او رہندکو زبان میں سونڑ کہتے ہیں۔ یہ بارشوں کا مہینہ ہے ۔مگر ایک بار جو لوگ اپنے ہاں اے سی سٹارٹ کر لیتے ہیں تو ان کا گزارا پھر اے سی کی ٹھنڈک کے بغیر نہیں ہوسکتا ۔مگر جو لوگ اپنے آپ کو اے سی کا عادی نہیں کرتے وہ عین اس ساون کے ماہ میںبھی گزارا کر لیتے ہیں۔یہ انسان کی برداشت کی قوت تک ہے اور جسم کا کسی ماحول کے ساتھ عادی ہوجانا ہے ۔ لوگوں کی جو برداشت کم ہوئی او رگاہے ختم ہوئی تو انھوں نے دریا¶ں کا رخ کر لیا ۔ وہاں اگر یہ لوگ نہ بھی نہائیں تو کیا یہ احساس کم ہے کہ ہم ٹھنڈک کے ماحول میں بیٹھے ہیں‘کیونکہ ”ذکرِ عیش نصف عیش “والی بات ہے ‘ دریا میں تو اول ان دنوں نہاناہی نہیں چاہئے اور اگر دریا کنارے بیٹھ کر پانی میں پا¶ں مارتے جائیں اور ساتھ چپس کا پیکٹ تھامے ایک ایک دانہ نکال کر کھائیں تو برا نہیں ‘پھر ساتھ سردریاب جیسے مقام پر ان سخت گرمی کے دنوں میںبھی مچھلی کاآرڈر دیا ہو تو کیا بات ہے۔ہماری قوم تو ایسی ہے کہ یہ آگ کو پانی کر کے پی جاتے ہیں۔ ان کے آگے مچھلی کی گرم تاثیر کیا معنی رکھتی ہے۔ہزارمنع کرو کہ دیکھو یہ مہینے مچھلی کھانے کے نہیں مگر باز کب آتے ہیں کھائیں گے اور سموچانگلیں گے خواہ حلق میں کانٹے ہی کیوں نہ چبھیں ۔ویسے موسم کی وہ کاٹ جو ہونی چاہئے تھی اور پچھلے مہینوں میں تھی وہ موجودہ طور پر نہیں ہے ۔اگر تپش کا وہ سلسلہ بدستور چلا آتا تو اب ” برستی آگ جو باراں کی آرزو کرتے“۔
 اس دوران میں بارشوں نے موسم کے لفظ میں سے ”سم “ نکال دیا ہے ۔ موسم میں وہ شدت اس لئے نہیں ہے کہ پورے ملک میں بارشیں ہو رہی ہیں اور ہمسایہ ملک میں بھی بارشوں کے چھناکے ہیں اور اس کے دریائی ریلے پنجاب کی سر زمین میں داخل ہو کر یہاں بھی اودھم مچا رہے ہیں۔ تیز ہوائیں چل رہی ہیں جو دوسرے علاقے کی بارشوں کو بھی اپنے ہاں برسا کر بھاگ جاتی ہیں‘ہمارے پشاو رکا فائدہ یہ ہے کہ شہر کے ارد گرد قریب و دور اگر بارشیں ہو رہی ہوں تو یہاں بھی مفت میں موسم خمار آلود ہوا¶ں کے چلن میں خوشگوار ہو جاتا ہے۔موسم کی نرمی یہاں بھی محسوس ہوتی ہے۔بس پنکھے کے آگے بیٹھے رہو تو پنکھے کی ہوا ان دنوں ٹھنڈک دے رہی ہے ‘میں تو کہتا ہوںکہ یہ بھی غنیمت ہے ‘وگرنہ ساون میں تو ٹھنڈی ہوا کا تصور کہاں ۔ہوا پنکھے سے نکلتی تو ہے مگر نیچے بیٹھے ہوئے بندے کو چھوتی نہیں ہے ‘ اوپر ہی اوپر کسی اور سمت کو نکل جاتی ہے۔ویسے آج کل بجلی کی وولٹیج بھی کم ہے ۔