میچ کو فیصلہ کن بنانے والا کھلاڑی

یہ کراچی کے پاکستان کرکٹ کلب کے مناظر ہیں جہاں آج سے لگ بھگ 16 برس قبل نیٹ پریکٹس کے دوران تابش خان، انور علی اور رومان رئیس جیسے تیز بولر گیند کر رہے تھے۔اس دوران کلب منیجر اعظم خان نے ایک 11 سالہ بلے باز کو بیٹنگ کے لئے بھیجنے کا فیصلہ کیا۔ وہاں کھڑے اکثر کھلاڑیوں نے انھیں کہا کہ ایسا نہ کریں اسے گیند لگ سکتی ہے تاہم اس 11 سالہ لڑکے نے خاصی دلیری سے بیٹنگ کی، جس کے بعد اعظم خان نے وہاں کھڑے سرفراز احمد اور اسد شفیق سے کہا کہ دیکھنا یہ لڑکا ایک دن پاکستان کرکٹ ٹیم میں کھیلے گا۔یہ 11 سالہ بلے باز سعود شکیل تھے جنھوں نے سری لنکا میں ریکارڈ توڑ ڈبل سنچری بنا کر پاکستان کو گال ٹیسٹ فیصلہ کن بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔یہ کہانی پاکستان کے سابق کپتان اور وکٹ کیپر سرفراز احمد نے گذشتہ برس سعود شکیل کو انگلینڈ کے خلاف راولپنڈی ٹیسٹ میں ٹیسٹ کیپ دیتے ہوئے بھی دہرائی تھی۔گال ٹیسٹ میں سعود شکیل ایک ایسے موقع پر بیٹنگ کے لیے کریز پر آئے جب پاکستان کے صرف 76 رنز پر تین کھلاڑی پویلین لوٹ چکے تھے اور جلد یہ سکور 101 پر پانچ کھلاڑیوں کے نقصان تک جا پہنچا تھا۔ سری لنکا کو پاکستان پر اب بھی 112 رنز کی برتری حاصل تھی اور آغا سلمان اس لائن اپ میں آخری مستند بلے باز تھے۔تاہم ان کی جانب سے جو پراعتماد انداز اپنایا گیا اس سے یہ محسوس نہیں ہوا کہ وہ اپنا چھٹا ٹیسٹ میچ کھیل رہے ہیں۔وہ اب تک ہر ٹیسٹ میچ میں کم از کم ایک اننگز میں تو نصف سنچری یا اس سے زیادہ رنز سکور کر چکے ہیں۔ فی الحال ان کی بیٹنگ اوسط 98.5 کی ہے۔ان کی اس اننگز کی بدولت پاکستان کو سری لنکا پر برتری حاصل ہوئی۔سری لنکا میں بیٹنگ عموماً ًپاکستانی بلے بازوں کے لیے خاصی مشکل رہی ہے اور ماضی میں سری لنکن سپنرز متایا مرلی دھرن، رنگنا ہیرتھ اور اب جے سوریا پاکستانی بلے بازوں کی مشکلات میں اضافہ کرتے رہے ہیں۔ماضی میں ان باﺅلرز کے خلاف پاکستانی بلے باز انتہائی محتاط انداز اپنا کر انھیں خود پر حاوی ہونے کا موقع دیتے تھے۔ خاص طور پر گال میں جو ماضی کی مشہور سری لنکن ٹیموں کے لیے ایک قلعہ سمجھا جاتا تھا۔تاہم سعود شکیل کی اس اننگز کی خاص بات یہ تھی کہ انھوں نے آغا سلمان کے ساتھ شراکت کے دوران متواتر سٹرائیک روٹیٹ کی اور اپنے شاٹس کھیلتے رہے جس نے سری لنکن سپنرز کو خود کو پاکستانی بلے بازوں پر حاوی ہونے کا موقع نہیں دیاسعود شکلیل نے فرسٹ کلاس کرکٹ میں بھی رنز کے انبار لگائے ہیں۔ 65 فرسٹ کلاس میچوں میں انھوں نے 16 سنچریوں اور 23 نصف سنچریوں کی مدد سے 4844 رنز بنائے ہیں۔ فرسٹ کلاس کرکٹ میں ان کا ٹاپ سکور 187 تھا۔ان کی اننگز کی خاص بات یہ بھی تھی کہ انھوں نے دن کا زیادہ حصہ پاکستانی باﺅلرز کے ساتھ بیٹنگ کرتے ہوئے گزارا اور پہلے نعمان علی اور پھر نسیم شاہ کے ساتھ بالترتیب 52 اور 94 رنز کی شراکت بنا کر اس بات کو یقینی بنایا کہ پاکستان کو سری لنکا پربھاری برتری حاصل ہو جائے سعود شکیل نے سپنرز اور فاسٹ باﺅلرز دونوں کو ہی عمدہ انداز میں کھیلا اور ان کی جانب سے انتہائی انہماک کے ساتھ بیٹنگ کرنے کے باعث پاکستان ایک مشکل صورتحال سے نکلنے میں کامیاب ہو گیا۔پاکستان کرکٹ ٹیم کے سابق منیجر منصور رانا کا کہنا تھا کہ ڈومیسٹک کرکٹ آپ کو بڑے رنز بنانے کا ہنر سکھاتی اور سعود شکیل نے بھی یہ ثابت کیا۔سوشل میڈیا پر اکثر افراد سعود شکیل کو دیر سے ٹیم میں شامل کرنے پر تنقید بھی کر رہے ہیں۔