قائد اعظم اور قائد ملت اپنے فعل اور کردار سے ایسی ایسی نادر مثالیں چھوڑ گئے تھے کہ اس ملک میں اگر ان کے بعد آنے والے ارباب بست و کشاد نے ان پر پچاس فیصد بھی عمل درآمد کیا ہوتا تو آج وطن عزیز مشکلات کا شکار نہ ہوتا۔ اقربا پروری اسراف اور سرکاری اہلکاروں کے کام میں مداخلت اور سفارش کے وہ کس قدر خلاف تھے اس کا اندازہ آپ ان چند واقعات سے لگا سکتے ہیں ۔ایک مرتبہ قائد اعظم محمد علی جناح کے ایک بہت ہی نزدیکی رشتہ دار گورنر جنرل ہاﺅس کراچی پہنچے اور قائد سے ملاقات کرنے کی خواہش میں ان کے ملٹری سیکرٹری کو اپنا وزٹنگ کارڈ دیا جس پر انہوں نے اپنے نام کے ساتھ یہ جملہ لکھا cousin of Quaid e Azam غالباً وہ اس حرکت سے گورنر جنرل کے سٹاف کو مرعوب کرناچاہتے ہوں گے۔ جب ملٹری سیکرٹری نے وہ کارڈ قائد کے سامنے رکھا تو انہوں نے اپنے سرخ سیاہی والے پین سے وہ جملہ کاٹ کر کارڈ کو واپس کرتے ہوئے ملٹری سیکرٹری سے کہا کہ موصوف سے کہہ دیا جائے کہ ٓائندہ وزیٹنگ کارڈ پر یہ جملہ نہ لکھا کریں اور یہ کہ سردست سرکاری مصروفیات کی وجہ سے وہ اس سے نہیں مل سکتے بعد میں کسی وقت اسے ملاقات کے واسطے بلا لیا جائے گا، کراچی میں ہندوستان سے آ ے ہوئے مہاجرین کو گھروں کی الاٹمنٹ کاسلسلہ جاری تھا۔ الاٹمنٹ کراچی کے اس وقت کے کمشنرہاشم رضا کر رہے تھے۔ ایک پرانے مسلم لیگی نے قائد اعظم سے کہا کہ وہ ذرا ہاشم رضا سے سفارش کر دیں کہ وہ اس کو گھر آﺅٹ آ ف ٹرن جلدی سے الاٹ کر دیں۔ جس پر قائد نے کہا کہ وہ کمشنر کے کاموں میں مداخلت کرنے کو تیار نہیں ہیں۔ قائد اعظم کے ایک پرانے ڈرائیور حنیف آ زاد کے مطابق قائد اعظم کو انہوں نے کئی بار گورنر جنرل ہاﺅس کی فالتو بتیاں اپنے ہاتھوں سے رات کو سونے سے پہلے بند کرتے دیکھا تھا۔ قائد اعظم جب بھی گورنر جنرل ہاﺅس میں کابینہ کی میٹنگ کی صدارت کرتے تو ان کے شرکا ءکی خاطر تواضع پر سرکاری بجٹ سے اعلی قسم کے snacks یا ظہرانوں پر بے دریغ سرکاری اخراجات نہ کئے جاتے ۔ایک مرتبہ گورنر جنرل ہاﺅس کے کیرٹیکر نے ان کو 37 روپے کا ایک بل پاس کرنے کیلئے پیش کیا تو انہوں نے صرف 27, روپے کی یہ کہہ کر منظوری دی کہ ان کے خیال میں واش روم میں استعمال کیلئے ایک item ایسا تھا جو فاطمہ جناح کے ذاتی استعمال سے متعلق تھا اس لئے قائد کے حکم کے مطابق اس کی مطلوبہ رقم جو دس روپے بنتی تھی۔ کیر ٹیکر کو قائد اعظم کی ہمشیرہ سے وصول کرنے کا انہوں نے حکم دیا جو بجا لایا گیا ۔اسی طرح جب وہ زیارت بلوچستان میں صاحب فراش تھے تو ان کی نگہداشت پر مامور ایک نرس نے بلوچستان۔ سے پنجاب اپنے تبادلے کے لئے ان سے سفارش کرنے کو کہا کیونکہ اس کا تعلق پنجاب سے تھا تو انہوں نے یہ کہہ کر اسے انکار کر دیا کہ وہ سرکاری اہلکاروں کے کاموں میں مداخلت کو برا تصور کرتے ہیں۔ ان کے ایک اے ڈی سی نے اپنی یاداشتوں میں لکھا ہے کہ گورنر جنرل ہاﺅس میں ایک میٹنگ کے انعقاد سے ایک دن قبل انہوں نے قائد سے پوچھا کہ سر کیا اس میٹنگ میں شرکاءکے لئے کافی کا بندوبست کیا جائے یا چائے کا۔ تو انہوں نے کہا کہ کیا وہ لوگ گھر سے ناشتہ کر کے نہیں آئیں گے اس کے بعد تو پھر یہ معمول بن گیا کہ قائد اعظم کی زیر صدارت ہر میٹنگ میں بس سادہ پانی میز پر رکھا جاتا۔
اشتہار
مقبول خبریں
پشاور کے پرانے اخبارات اور صحافی
سید مظہر علی شاہ
سید مظہر علی شاہ
سٹریٹ کرائمز کے تدارک کی ضرورت
سید مظہر علی شاہ
سید مظہر علی شاہ
فرسودہ فائر بریگیڈ سسٹم
سید مظہر علی شاہ
سید مظہر علی شاہ
معیشت کی بحالی کے آثار
سید مظہر علی شاہ
سید مظہر علی شاہ
ممنوعہ بور کے اسلحہ سے گلو خلاصی
سید مظہر علی شاہ
سید مظہر علی شاہ
امریکہ کی سیاسی پارٹیاں
سید مظہر علی شاہ
سید مظہر علی شاہ
سعودی عرب کی پاکستان میں سرمایہ کاری
سید مظہر علی شاہ
سید مظہر علی شاہ
امریکی پالیسی میں تبدیلی؟
سید مظہر علی شاہ
سید مظہر علی شاہ
سموگ کا غلبہ
سید مظہر علی شاہ
سید مظہر علی شاہ
سابقہ فاٹا زمینی حقائق کے تناظر میں
سید مظہر علی شاہ
سید مظہر علی شاہ