پہلے ہمارے شہر میں سرکس لگا کرتے تھے۔خوب کھیل تماشا ہوتاتھا۔ ٹکٹ لے کر اندر گھس جاتے ۔سیر کرتے اور آدھ گھنٹہ تک واپس نکل آتے یا کوئی کھیل زیادہ پسند آ جاتا تو وہاں کھڑے لوگوں کے ساتھ چپک جاتے اور کبھی شیر کو دیکھ رہے ہیں کبھی موت کے کنویں کا تماشا کر رہے ہیں۔ نیچے سے گاڑی چلتی ہوئی گول گول گھوم کر اوپر کھڑے ہمارے منہ کے پاس شانگ سے گزر جاتی ۔وہاں جوکر بھی ہوتا تھا ۔ جو کسی کھیل کے تاخیر سے شروع ہونے کے خدشے کے پیشِ نظر سٹیج پر آ جاتا اور اپنی مزاح سے بھرپور حرکتوں سے شائقین کو محظوظ کرتا۔ مگر میرے دل کو وہ خوش نہ کر سکا او رکبھی بھی نہ کرسکا میں بہت دفعہ وہاں جاتا مگر الٹا اس کو دیکھ کر دل کو خفا دلگیر واپس لے کر آتا ۔” جہاں بھی جانا تو آنکھوں میں خواب بھر لانا ۔یہ کیا کہ دل کو ہمیشہ اداس کر لانا “۔بلکہ آج کل تو کوئی نیا شاپنگ مال کھلے تو وہاں بھی کچھ لڑکے بھالو وغیرہ کالبادہ اوڑھ کر بچوں کے ساتھ ہاتھ ملاتے ہیںاور انھیں خوش کرتے ہیں ۔اگروہاں جانا ہو یا وہاں مین سڑک پرسے میں تیزی کے ساتھ بھی گزر جا¶ں تو میرا دل و دماغ اس شاپنگ مال کے گیٹ پر اسی جوکر کی جانب متوجہ رہ کر وہیں کھڑے رہ جاتا ہے۔میں گھر بھی آ جاتا ہوں مگر میرے دماغ سے جوکر کا یہ روپ ڈیلیٹ نہیں ہوپاتا ۔ کبھی بندر کو ڈگڈگی پرناچتا ہوا دیکھتا ہوں تو وہا ںبھی سوچ میں پڑجاتا ہوں۔ جانے ایسا کیوں ہے۔مگر شاید حساس طبیعت ہے اس وجہ سے ۔پھر اب سے تو نہیں جب ہم بچے تھے تب سے میری یہی سوچ ہے۔ہمارے ساتھ کے بچے ان جوکروں سے ہاتھ ملاتے اور میں ان کو دیکھتا رہ جاتا سوچ میں مبتلا ہو جاتا۔بندر اگر ناچے نہیں تو اپنے لئے روٹی کیسے کمائے گا۔ کیونکہ وہ جب ڈگڈگی پر ناچتا ہے تو اس منظر کو دیکھنے والے اس پر پیسے نچھاورکرتے ہیں۔ انھیں پیسوں پر نہ صرف اس حیوان کے پیٹ کے لئے غذا مہیا ہوتی بلکہ بندر کا مالک بھی روٹی کھاسکنے اور پھر اپنے بچوں کو کھلانے پلانے کے قابل ہو تا۔جو کر کی تو اپنی مخصوص شکل و شباہت ہوتی ہے جس کو دور سے پہچان کر بچے بھی آپس میں کہتے ہیں او جوکر دیکھو۔ جوک سے ہے یہ لفظ ۔انگریزی میں ہنسی مذاق کے معنی ہیں۔جوکر دوسروں کو ہنساتا ہے ۔مگر یہ کیا کہ مجھے جوکرنے ہمیشہ رُلایا ہے۔یہ کیا کہ انسان اب اتنا بھی مجبور ہے کہ جی چاہے نہ چاہے وہ وہ کام کرتا ہے کہ اس کو اور اس کے بال بچوں کوروٹی مل جائے۔انسان بھی کتنا مجبور ہے ۔دیکھا جائے تو ہمارے معاشرے میں زیادہ تر انسان اپنے شعبہ میں مِس فٹ ہیں ۔وہ جو کام بھی کرتے ہیں وہ روزی روٹی کے لئے کرتے ہیں ۔گویا مجبوری کے عالم میں کرتے ہیں۔۔ہمارے ہاں کتنے ہی مزاحیہ اداکار ٹی وی اور فلم میں آئے مگر اپنی ذاتی زندگی میں پریشان تھے۔ اداکار ننھا کو لیں وہ سب کو ہنسانے والا جانے کیا دکھ تھا اس نے اپنی زندگی کا خاتمہ خود کر لیا تھا۔خودغم زدہ رہتے ہوئے دوسروں کو خوش کرنا کوئی آسان کام نہیں اور بہت کم لوگ ایسے ہیں جو اندر سے دکھی ہونے کے باوجود دوسروں کو ہنسانے کیلئے تیار ہوتے ہیں۔