توجہ طلب قومی امور 

 فنانس کی زبان میں ایک لفظ ہے non developmental expenditure یعنی کہ غیر ترقیاتی کاموں پر اخراجات ہمارا ہمیشہ سے یہ المیہ رہا ہے کہ ہمارے ارباب اقتدار نے غیرترقیاتی اخراجات کی مد میں خرچے پر مناسب کنٹرول بالکل نہیں کیا جس کی وجہ سے ہمارے ترقیاتی منصوبوں پر منفی اثرات پڑے اور ان سے متوقع ثمرات حاصل نہ ہو سکے اس روش کو ختم کرنا ازحد ضروری ہے بالکل اسی طرح ہم کو اپنی درآمدات کم کر کے ان کے مقابلے میں برآمدات کو زیادہ کرنا ضروری ہے یہ دو کام کئے بغیر اس ملک کی معیشت اپنے پاﺅں پر کھڑی نہیں ہو سکے گی بڑے دکھ کی بات ہے کہ ملک کے بڑے شہروں میں ڈیپارٹمنٹل سٹورز غیرملکی اشیاءسے آپ کو بھرے پڑے نظر آئیںگے کہ جن کو خریدنا عام شہری کے بس کی بات نہیں۔ اب ہمیں یقینی طور پر کفایت شعاری کی طرف جانا ہوگا۔یہ محکمہ مردم شماری اور اس کے روزانہ کے کام کاج اور کارکردگی کی مانیٹرنگ کرنے والوں کی کمزوری نہیںتو پھر کیا ہے کہ ملک میں مردم شماری کا کام بروقت نہیں کیا جارہا جس کی وجہ سے ملک کی سیاسی جماعتوں میں آج انتشار نظر آ رہا ہے اور اس بات کا بھی خدشہ پیدا ہو رہا ہے کہ کہیں الیکشن کی بابت ایک نیا مسئلہ نہ اٹھ کھڑا ہو کیونکہ کئی سیاسی جماعتیں بضد ہیں کہ الیکشن تازہ ترین مردم شماری کی بنیاد پر ہوں۔ مون سون کی بارشوں نے جو تباہی مچائی ہے اس سے ظاہر ہو گیا ہے کہ جن اداروں کی یہ ذمہ داری تھی کہ وہ قدرتی نالوں کی بروقت صفائی کرتے انہوں نے ان میں تجاوزات کو ہٹانے میں سستی کا مظاہرہ کیا جس سے بارشوں کے پانی کے قدرتی بہاﺅ میں رکاوٹ کی وجہ سے بارشوں کا پانی ادھر پھیل کر نشیبی علاقوں میں واقع گھروں میں داخل ہو گیا جس سے ان گھروں کو نقصان پہنچا اب آگے کی خدا خیر کرے کیونکہ اطلاع یہ ہے کہ وطن عزیز میں تقریباً سات ہزار گلیشیرز ہیں جو امسال گرمی کی حدت سے پگھل کر سیلابی ریلوں کی شکل اختیار کر سکتے ہیں۔ سردست پاکستان اپنے دوست ممالک کی مالی امداد سے معاشی استحکام کے راستے پرآگیا ہے پر کب تک ہم ان دوستوں کی مالی امداد کا سہارا لیتے رہیں گے ہمیں اپنے پاﺅں پر اب کھڑا ہونا ہوگا ہمیں اپنے پاﺅں اتنے پھیلانے ہوں گے کہ جتنی ہماری چادر ہے نہ جانے ہمیں یہاں سابق صدر غلام اسحاق خان کی یہ بات کیوں یاد آ رہی ہے کہ پیسے درختوں پر نہیں اُگتے۔ سب سے پہلے ایوان اقتدار میں موجود حکام کو کفایت شعاری اور قناعت کا دامن پکڑنا ہو گا اور اس ضمن میں سب سے پہلے ہمارے ارباب اقتدار کو سادگی اور قناعت کی بنیاد پر اپنا معاشی نظام مرتب کرنا ہوگا ہر سیاسی جماعت کے اندرمالی امور کے ماہرین موجود ہیں ان کو چاہئے کہ وہ ابھی سے ایسے اقدامات پر مشتمل معاشی پالیسیوں کا بلیو پرنٹ تیار کرکے ابھی سے کام شروع کروا دیں کہ جن سے ہماری آئی ایم ایف سے جان چھوٹ جائے بہتر طریقہ تو یہ ہے کہ تمام سیاسی جماعتیں یکجا ہو کر اپنے اپنے معاشی امور کے ماہرین کا ایک مشترکہ سیمینار منعقد کرائیں جن میں ان ماہرین کی آراءکو مدنظر رکھتے ہوئے ایک قومی مالی پالیسی مرتب کی جائے اور یہ فیصلہ کر لیا جائے کہ جو پارٹی بھی الیکشن جیت کر ایوان اقتدار میں آ ئے گی وہ اس پر من و عن عمل درآمد کرے گی سردست موجودہ مالی بحران سے نکلنے اور آئندہ کیلئے ملک میں ایک عوام دوست معاشی نظام نافذ کرنے کیلئے ایک بنیاد فراہم کرنے کا یہی ایک واحد رستہ نظر آ تا ہے۔