حالات بہت بدل گئے ہیں پھر بھی ان تمام حال و احوال کے باوجودجو اپنے حق ہمسائے عزیز و رشتہ دار دوست یار اور کی عزت کرنا جانتے ہیںوہ قابلِ داد ہیں او راب بھی قابلِ تقلید ہیں۔یہ وہی لوگ ہیںکہ جن کے دم قدم سے معاشرے کی رونقیں بحال ہیں۔ سب ایسے نہیں ہاتھ کی پانچوں انگلیاں برابر نہیں ۔ہائے وہ محبتیں وہ پیار وہ عزت و احترام گئے خاک ہوئے۔کوئی کسی کی خاطر مدارات کیوں کرے پیسے جمع کر کے ڈا¶ن پیمنٹ دے اور اپنے لئے بینک سے گاڑی کیوں نہ نکالے ۔جانے وہ زمانہ اب لوٹ کر آئے گاکہ نہیں ۔جانے آگے وقت کی پٹاری میں کیا کیاموجود ہے جو انسانوں کے ان رشتوں کو کمزور کرنے کے لئے تیار بیٹھے ہیں۔جہاں برائی ہوتی ہے وہاں اچھے لوگ بھی تو موجودہوتے ہیں ۔ یہ تو ہر دور میں ہوتا آیا ہے۔نہ تو ماحول اچھا ہوتا ہے اور نہ ہی برا ہوتا ہے۔اس میں ماضی کی یادیں بھی ہیں او رآج کی تلخ حقیقتیں بھی منہ چڑا رہی ہیں۔ گویا یہ گزرے کل کی کہانی ہے تو گذشتہ سے پیوستہ ہے اور آنے والے کل کی ہے تو مستقبل سے وابستہ ہے ۔کل تو کوئی مر بھی جاتا تھا تو کل تین آدمیوں میں فوراً معلوم ہو جاتا تھا ۔مگر آج تو کوئی دنیا سے جائے سرے سے پتا ہی نہیں چلتا۔انسانوں کا ایک ہجوم بیکراں ہے جیسے ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر ہو ۔کسی کو کسی کا پتا ہی نہیں ہے۔مگر پتا چلتا ہے تو اس کو مرے ہوئے بھی مہینہ گزرا ہوتا ہے ۔اخبار پر کسی کی نظر نہیںپڑتی کہ وہ ” انتقالِ پُر ملال “ کے خانے میں مرنے والے کی نیوز پڑھے ۔سب ٹی وی سے جڑے ہیں اور نیٹ اور ویب سائٹس ہیں جو ان کو بطورِ ٹاسک سونپ دی گئی ہیں۔سو مرنے والے کو چالیس دن گزر جاتے ہیں تو کہیں اس کی یاد آئے تو ایک دوسرے سے پوچھتے ہیں یار وہ نظر نہیںآرہا ہے ۔دوسرا حیران ہو کر کہتا ہے کہ کیا آپ کو معلوم نہیں ۔پہلے والا کہتا ہے نہیں تو کیا ہوا ۔آپ کو پتا نہیں ۔نہیں نا نہیں پتا کیا ہوا ۔یار اس کو تو مرے ہوئے کتنے دن ہو چکے ہیں ۔نہیں یار یہ کب ۔یہ تو بڑے دنوں کی بات ہے۔اب تو دو ایک روز پہلے اس کا چالیسواں تھا۔موبائل نے پاس کے بیٹھنے والوں کو ایک دوسرے سے اتنا دور کردیا ہے کہ اک کو دوسرے کے حال کا معلوم ہی نہیںہوپاتا۔ پھر جو لوگ دور دیس کے باسی ہیںان کو اتنا قریب کردیا ہے کہ سات سمندر پار ہوا بھی چلے تو اس کی ٹھنڈک یہاں محسوس ہوتی ہے۔زمانہ عجیب ڈگر پر چل نکلا ہے۔ایک ویران راستہ پر جہاں سے واپسی نہیں او رآگے جا¶ تو راستہ نہیں۔سمجھ میںنہیںآتا کہ اس کا آخر انجام کیاہوگا ہم کیا کریںگے ہم کہاں جائیں گے۔ایک بند گلی کاسفر ہے جس کے اختتام پرآگے دیوار ہے مزید وسعت نظر نہیں آتی ہے۔پہلے تین لوگ تھے جب کوئی غم کا موقع ہوتا تودور دور سے آتے اور آج ایک گلی میں رہنے والوں کو ایک دوسرے کی خبر تک نہیںہو پاتی کہ ساتھ والے گھر میں ہوکیا رہاہے۔” کیا بیت گئی اب کے فراز اہلِ چمن پر ۔یارانِ قفس مجھ کو صدا کیوں نہیںدیتے“۔اہل چمن ایک دوسرے سے بے نیازہو چکے ہیں اور جاننا ہی نہیںچاہتے کہ چمن کے دوسرے درخت پر پرندوں کی اچانک کی چہکار کیوں ہے ۔وہ پہلے سی اقدار تو سرے سے ناپید ہوئی جاتی ہیں۔ پہلے تو مریضوں کی عیادت کا رواج تھا ۔اب تو یہ رواج ہو چلا ہے کہ چلو آرام سے جائیں گے ۔اگر مریض بستر پر دراز ہے تو بستر کا قیدی ہو چکا ہے۔جا کہیںنہیں سکتا آرام سے کسی دن سہولت حاصل ہو تو نکل چلیں گے۔ آج کا انسان سنگ دل اور سخت ہو چکا ہے۔آج تو دیر کرنا اور مریض کی عیاد ت کو آرام سے جانا ہی فیشن بن چکا ہے۔کیونکہ ” عیادت رسمِ دنیا تھی چلے آتے تو کیا ہوتا ۔کسی کے پوچھ لینے سے نہ جی جاتے نہ مرجاتے“۔کم لوگ ہوتے تھے عید کے دنوں کا انتظار ہوتا تھا کہ بچے نئے کپڑے پہنیں گے۔مزا آتا تھا نئے کپڑوں کی اپنی شان تھی آن بان تھی ۔مگر اب تو روزانہ بھی کپڑے پہنے جاتے ہیں ۔مگر بے برکت ہوائیں ایسی چل رہی ہیں کہ کسی چیز کا مزا ہی نہیں رہا ۔سب کچھ موجود ہے مگر پھیکا پھیکا سا ہے۔لوگ ایک دوسرے کے غم میں برابر کے شریک ہوتے تھے بھرپور شرکت کرتے تھے مگر اب تو نیا ایسی ڈوبی ہے کہ کسی کو کسی کی پروا ہی نہیں رہی ۔کوئی مرتا مر جائے مگر دیکھنے تک کو نہیں جائیں گے ۔آنا جانا تو چھوڑ فون تک کر کے احوال پُرسی بھی نہیں کی جاتی ۔ وقت ایسی ڈگر پررواں دواں ہے جو آگے جاکر ان گنت چھوٹے چھوٹے دوسرے راستوں میں بدل جاتی ہے۔جہاں اس موڑ پر اگر بچھڑے تو پھرقسمت ہی ملائے تو ملائے وگرنہ سمجھو کہ لوگ ایک دوسرے سے ہمیشہ کے لئے بچھڑ گئے ہیں۔ ویسے کے ویسے ہیں او رموجود ہیں مگر ان میں وہ چاشنی وہ مٹھاس اپنائیت کی وہ خوشبو نہیں رہی ۔بس روا روی ہے رسمی محبتیں ہیں آنکھ ہوئیں چار تو دل میں آیا پیار ۔اگر کسی کے گھر مہمان چلے جا¶ یا کوئی یہاں آ جائے تو بوجھ محسوس ہو تا ہے ۔پہلے ایسا نہ تھا پہلے بھی تو اتنی فراواں دولت ہر کسی کے پاس نہ تھی مگر خلوص تو تھا اب وہ چیز نہیں رہی۔سائنسی ایجادات والی اشیاءنے انسانوں کو مصروف کر دیا ہے۔بے شمار چیزیں ہیں جو سائنس نے ایجاد کر کے بعض انسانی دلوں کے محبت والے دروازوں پرموٹے موٹے تالے لگا دیئے ہیں۔اب کوئی اپنے لئے مہنگا موبائل کیوں نہ خریدے کہ مہمانوں پر پیسے خرچ کرے ۔ پہلے تو اپنے بہت قریب کے رشتہ داروں کے ہاں جا کر مہینوں پڑے رہتے تھے ۔مگراب تو بعض جگہوں پریہ بھی دیکھنے میں آتا ہے کہ دور شہر سے جا¶ اور دوسرے شہر میں ان کے گھر دو دن سے زیادہ رہ جا¶ تو وہاں کے گھر والوں کا موڈ خراب ہونے لگتاہے ۔