اقوام متحدہ کے 78 سال

جب دوسری جنگ عظیم کے بعد اکتوبر 1945 میں اقوام متحدہ کا وجود عمل میں لایا گیا تو کئی سیاسی مبصرین کے وہم و گمان میں بھی یہ بات نہ تھی کہ یہ ادارہ ایک لمبے عرصے تک فعال اور متحرک رہے گا اور سپر پاورز کی پاور پالیٹکس کا شکار نہ ھوگا کیونکہ ان کے پیش نظر لیگ آف نیشنز کا انجام موجود تھا جو پہلی جنگ عظیم کے بعد 1926 ءمیں بنی اور بیس برس کے اندر ہی شکست و ریخت کا شکار ہو گئی اقوام متحدہ کے قیام کی مدت دو سال بعد یعنی 2025 ءمیں 80 برس کے لگ بھگ ہو جائے گی اس دوران دنیا کے سیاسی افق پر کئی ایسے تنازعات ابھرے کہ جو اگر عالمی لیڈروں کی سیاسی بصیرت اور اقوام متحدہ کے ارباب بست و کشاد کی شبانہ روز کاوش سے حل نہ ہوتے تو وہ تیسری جنگ عظیم کا پیش خیمہ بن سکتے تھے اس دوران اقوام متحدہ کے کئی سیکرٹری جنرلز نے بھی دور اندیشی اور سیاسی فہم کا مظاہرہ کیا ان میں ڈاگ ہیمر شولڈ یو تھانٹ‘کرٹ والڈیم اور کوفی عنان کے نام قابل ذکر ہےں‘ 1960 ءکی دہائی میں اگر اقوام متحدہ بروقت کلیدی کردار ادا نہ کرتی تو کیوبا کے بحران میں اس وقت کے سوویت یونین اور امریکہ کے درمیان خونریز جنگ چھڑنے کا امکان تھا جو تیسری عالمگیر جنگ کی شکل اختیار کر سکتا تھا ‘ اقوام متحدہ کے امن مشن کا کام بھی قابل تحسین ہے اس کے اس ذیلی ادارے نے افریقہ کے کئی ممالک میں متحارب جنگی گروپوں کی آ پس میں لڑائی کو موثر انداز میں کنٹرول کیا اسی طرح دنیا میں کسی جگہ بھی سیلابوں زلزلوں اور وباﺅں نے جب بھی تباہی مچائی تو قدرتی آفات سے ہونے والے نقصانات کے ازالے کے لئے بھی اس نے مثبت رول ادا کیا یہ بات بھی اپنی جگہ کچھ حد تک درست ہے کہ بعض ممالک کے درمیان تنازعات کو حل کرنے میں اقوام متحدہ کو خاطر خواہ کامیابی نصیب نہیں ہو سکی پر اگر بحیثیت مجموعی اقوام متحدہ کی کارگزاری کا جائزہ لیا جاے تو مائنس پوائنٹس کے مقابلے میں اس کے پلس پوانٹس زیادہ نظر آتے ہیں ان ابتدائی کلمات کے بعد آ ئیے اہم قومی اور عالمی امور کی تازہ ترین پوزیشن پر بھی ایک طائرانہ نظر ڈال دی جائے افغانستان کے حکمران ہمیں بار بار یہ تسلی تو دیتے ہیں کہ کسی ملک کو یہ اجازت نہیں دی جائے گی کہ وہ ان کی سر زمین کو پاکستان کے خلاف تخریبی سرگرمیوں کے لئے استعمال کرے پر وہ اب تک افغانستان میں موجود ان دہشت گردوں کو نکیل نہیں ڈال سکے جو آئے دن پاکستان کے اندر خودکش دھماکے کر رہے ہیں۔یوکرائن کے وزیر خارجہ کے حالیہ دورہ پاکستان اور ہمارے وزیر خارجہ کی اگلے روز ان کے ساتھ ہونے والی مشترکہ پریس کانفرنس کے بارے میں اتنا عرض ہے کہ پاکستان کو یوکرائن اور روس کے تنازعے میں نہایت پھونک پھونک کر قدم اٹھانا ہوگا اور ایسے کسی قدم اٹھانے سے گریز کرنا ہوگا کہ جس سے روس متنفر ہو جائے کیونکہ بڑی مشکل سے ہمارے بارے میں روس کے دل میں جو میل تھی وہ اب کہیں جا کر نکلی ہے ہمیں روس کے ساتھ اپنے تعلقات دوبارہ خراب نہیں کرنا چاہئیں ۔شاذ ہی کوئی ایسا دن گزرتا ہو کہ جب ٹیلی ویژن سکرین پر اور اخبارات میں روڈ پر ٹریفک حادثات میں جاں بحق اور زخمی ہونے والے افراد کی تعداد کا ٹکرticker اور سرخیوں میں ذکر نہ ہوتا ہو اب تو اس ملک میں روڈ کا سفر جان لیوا ہو چکا ہے‘ ٹریفک کے قوانین کو مزید سخت بنانا ہوگا اور ٹریفک پولیس کے کان کھینچنے ہوں گے کہ وہ کیوں اوور سپیڈنگ کرنے والوں کے ڈرائیونگ لائسنس اور ان کی گاڑیوں کے کاغذات کینسل کر کے ان کو پابند سلاسل نہیں کرتے اسی طرح انہوں نے ابھی تک ایسا میکنزم کیوں نہیں وضع کیا کہ جسکے تحت جو گاڑی مکینیکلی فٹ نہ ہو وہ سڑک پر نہ آ سکے اگر اس ضمن میں کسی قانون سازی کا فقدان ہے تو مطلوبہ قانون سازی کرنے میں تاخیر کیوں کی جا رہی ہے‘ آپ عرب امارات اور سعودی عرب کے ٹریفک پولیس کے نظام کو ہی دیکھ لیں ان جیسے ٹریفک کے قوانین کو وطن عزیز میں نافذ کرنے میں آخر کیا رکاوٹ ہے؟۔