نوجوان افرادی وسائل

پاکستان کو ترقی یافتہ ملک بننے سے کیا چیز روکے ہوئے ہے؟ آخر غربت کیوں ختم نہیں ہو رہی؟ پاکستان کامیابی کی راہ پر کیسے گامزن ہوگا؟ بلوچستان کی عدم ترقی کی وجہ کیا ہے؟ غربت سے دوچار عوام معاشی خوشحالی سے کب لطف اندوز ہوں گے؟ تھرپارکر (سندھ) خودکشی کے واقعات میں سرفہرست ہے جبکہ قومی سطح پر بھی خودکشی کے ذریعے اموات میں اضافہ کیوں ہو رہا ہے؟ غیرت کے نام پر خواتین کو قتل کرنے میں ’عزت‘ کیوں محسوس کرتے ہیں؟ دیہی علاقوں میں اقلیتی برادری سے نفرت کی شدت کیوں برقرار ہے؟ یہ اور اِن جیسے لاتعداد سوالات جواب طلب ہیں‘اقوام متحدہ کے ادارے ’یو این ڈی پی‘ نے پاکستان نیشنل ہیومن ڈویلپمنٹ رپورٹ جاری کی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ ملک کی چونسٹھ فیصد سے زائد آبادی تیس سال سے کم ہے اور اِس کی عمریں اُنتیس فیصد (پندرہ سے اُنتیس سال کے درمیان) ہیں‘ جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ملک کی ترقی اور استحکام کی ذمہ داری نوجوانوں کے کندھوں پر ہے لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ نوجوانوں کی اس بڑی تعداد کو پاکستان میں پالیسی سازی کا حصہ نہیں بنایا جاتا چاہے وہ موسمیاتی تبدیلی‘ ترقی یا تعلیمی پروگرام ہوں یا انفارمیشن ٹیکنالوجی (آئی ٹی) اقدامات اور انٹرپرینیورشپ پالیسی ہو۔ نوجوانوں کی اِس چونسٹھ فیصد آبادی کی ضروریات اور اُمیدوں کے بارے میں غور ہونا چاہئے۔ انہیں روزگار کے مواقعوں کی ضرورت ہے؟ آخر کیا چیز ہے جو اِنہیں ملک سے باہر جانے (معاشی ہجرت) پر مجبور کر رہی ہے؟ پاکستان نباتات و حیوانات‘ ثقافت‘ تاریخ و دانشوری کی صورت ٹھوس وسائل سے مالا مال ہے لیکن کسی نہ کسی صورت یہ وسائل ضائع ہو رہے ہیں اور برین ڈرین کی شکل میں ملک چھوڑ کر جانے والوں کی تعداد میں ہر سال اضافہ ہو رہا ہے۔ بیورو آف امیگریشن اینڈ اوورسیز ایمپلائمنٹ نے انکشاف کیا ہے کہ سال دوہزار بائیس کے دوران سات لاکھ پینسٹھ ہزار سے زائد باصلاحیت پاکستانیوں نے ملک چھوڑا۔ اِس حوالے سے فیصلہ سازوں کو غور کرنا چاہئے کہ وہ کس طرح نوجوانوں کی صلاحیتوں اور اِس اہم افرادی قوت سے استفادہ کر سکتے ہیں۔ چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروباری ادارے اور چھوٹے پیمانے پر کاروبار کسی بھی ملک کی اقتصادی ترقی و نمو میں محرک کا کردار ادا کر رہے ہوتے ہیں۔ اسٹیٹ بینک کے مطابق پاکستان میں چالیس لاکھ سے زائد چھوٹی صنعتیں اور کاروبار (ایس ایم ایز) ہیں جن سے پاکستان کی کل آمدنی (جی ڈی پی) کا پچیس فیصد حصہ حاصل ہو رہا ہے۔پاکستان زرعی معیشت ہے لیکن زراعت کی بجائے چھوٹے پیمانے کی صنعتیں (ایس ایم ای سیکٹر) 78فیصد روزگار و آمدنی کے مواقع فراہم کر رہا ہے۔ اگر زراعت خاطرخواہ توجہ سے محروم ہے تو چھوٹی صنعتیں اور چھوٹے کاروبار بھی یکساں نظرانداز ہیں جن کی استعداد کار میں حکومتی قرضوں اور مالی امداد کے ذریعے اضافہ ممکن ہے تاکہ وہ اعتماد کے ساتھ کام کرسکیں اور صارفین کی مارکیٹ کی ضروریات پورا کی جا سکیں۔ ضروری ہے کہ فیصلہ سازی کی سطح پر ٹھوس حکمت عملی تیار کی جائے جس کا مقصد آئی ٹی‘ زراعت‘ لائیو سٹاک‘ پانی‘ صحت‘ خوراک اور بنیادی ڈھانچے کی ترقی جیسے شعبوں کی سرپرستی کرے اور نوجوانوں کی حکومت سے جڑی اُمیدیں پوری ہوں۔ اِس حوالے سے بہترین لائحہ عمل وہ ہوگا جس جسے نوجوان خود تشکیل دیں یا جس لائحہ عمل کی تشکیل میں نوجوانوں سے رائے حاصل کی گئی ہو۔ اس سے نوجوانوں کے ساتھ ساتھ باقی آبادی پر بھی مثبت اثرات مرتب ہوں گے۔ چھوٹے پیمانے پر کاروبار کو مالی مدد کی فراہمی کے ذریعے سہارا دیا جا سکتا ہے۔ قومی فیصلہ سازوں کو سمجھنا چاہئے کہ نیا کاروبار شروع کرنے (سٹارٹ اپس) اور چھوٹے پیمانے پر خود روزگار کے مواقع موجود ہیں لیکن اُن میںژقرضوں کے ذریعے بینک سرمایہ کاری اِس وجہ سے نہیں کر رہے کیونکہ ایس ایم ایز کے ناکام ہونے کا خوف زیادہ ہے لہٰذا اگر نوجوانوں کی مدد کرنی ہے تو اُنہیں قرضوں کی بجائے مالی امداد کی صورت سہارا دیا جانا چاہئے۔