غلطی کس کی ہے؟

میں تو جب بھی گھر سے بائیک اٹھائے نکلتا ہوں تو واپسی پر جلتے کڑھتے ہوئے گھر پہنچتا ہوں‘ بازاروں میں اتنا بے ہنگم ٹریفک ہے کہ کبھی ایک کے ساتھ الجھو کبھی دوسرے کے ساتھ کبھی تو چپ چاپ وہاں سے نکل چلو کبھی وہاں تُوتکار کی نوبت آ جاتی ہے معاملہ یہی ہوتا ہے کہ سامنے والا اپنے آپ کو حق پرسمجھتا ہے حالانکہ صاف صاف اسی کی غلطی ہوتی ہے مگر چونکہ وہ اپنی کوتاہی کو مانتا نہیں اس لئے بحث کا آغاز ہو جاتا ہے مصیبت یہ ہے کہ راہ پر جاتے ہوئے ہر آدمی کو یہ احساس ہوتا ہے کہ میں اگر گاڑی چلا رہاہوں تو ہر لحاظ سے یہ سڑک میرا حق ہے غلطی تو دوسرا کرے گا میں نے غلطی نہیں کرنا میں کوتاہی سے پاک ہوں ہم تو کبھی غلط اوور ٹیک کرنے پر اگلے کے سر ہو جاتے ہیں مگر دیکھتے نہیں کہ اگلے کے ہاتھوں سرپھٹول بھی ہو سکتا ہے مگر آواز لگا دیتے ہیں خواہ وہ بندہ گاڑی ہی میں کیوں نہ ہو بعض تو اپنی غلطی مان کر معافی کے لئے مسکرا کر دیکھتے ہیں تو جلدی ہمارا دل نرم ہو جاتا ہے اگرچہ کہ ہم تیار ہوتے ہیں کہ اس کو کھری کھری سنائیں گے مگر دل ہی ایسا ہے کہ جب کوئی معافی کا طلبگار ہو تو ہمیں بھول ہی جاتا ہے کہ اس نے ہمارا کچھ بگاڑا ہے ہم اس کی کوتاہی کو قابلِ غور نہیں سمجھتے او رجاتے رہتے ہیں کتنی بار سڑک پر جاتے ہوئے کرکٹ کا بال ہمیں آن کر لگا چونکہ وہ بچے ہوتے ہیں اس لئے غلطی کرنا اور ناسمجھی تو ان کی فطرت میں ہوتی ہے اس لئے جانے دیتے ہیں اس حد تک کہ ان کو دیکھتے بھی نہیں تو اس پراحتجاج کا کیا سوال بنتا ہے پھر یہ کون سا بازآئیں گے کوئی اور گزرے گا تو اس کے سر پر بھی بال دے ماریں گے وہ رک کر ان کو برا بھلاکہے گا آخر چپ ہو کر وہاں سے چلتا بنے گا جب یہی کچھ کرنا ہے تو ہمیں بھی کیا ضرورت کہ لڑائیاں مول لیںاور وہ بھی بچوں سے سڑک پر جاتے ہوئے نہ صرف یہ بلکہ ٹریفک کی خلاف ورزیاں کرتے ہوئے کتنی گاڑیاں کتنی بائیک اور رکشے اور پھر چنگ چی دکھائی پڑ جائیں گے پھر ان لوگوں کی خاص بات یہ ہے کہ ایک تو خلاف ورزی اور اوپرسے انتہائی تیز رفتاری سے جاتے ہوں گے آدمی کچھ بھی نہ دیکھے او ران کی تیز رفتاری کو دیکھے تو جلتا کڑھتا رہتا ہے‘ ہم تو احتیاط کے مارے آہستہ جارہے ہوتے ہیں مگر وہ برق رفتاری سے غائب ہو جائیں گے آدمی کے غصے کے بول اس کے منہ ہی میں تول مول کرتے ہوئے رہ جائیں گے‘ہمارے ایک دوست ہیںاچھے خاصے سرکاری عہدے پر فائز ہیں مگر رش کے کارن گاڑی چھوڑ کر بائیک پر گھومتے ہیں پھر چھوٹے موٹے کاموں کے لئے اب کیاگاڑی نکالیں گے پھر پٹرول بھی کون ساسستا ہے اور پٹرول ڈیلروں نے پمپس پرتیل بند کردینے کی دھمکی دی ہے وہ جب بائیک لے کر گھر سے نکلتے ہیںتو ہر ایک کے ساتھ لڑبھڑ کر واپس آتے ہیںوہ ہیں بھی اسی جذباتی طبیعت کے ذرا برداشت ان میں بھی نہیں ہے کسی کو دھپڑ رسید کردیا کبھی خود الٹے ہاتھ کی کھا کر آگئے ایک بار تو لٹا پُٹا گریبان لے کر گھر آئے تو سب ان کے گر دضرور جمع ہوتے مگر نہ ہوئے ان کو پتا ہے کہ بابا گھر سے بائیک لے کر نکلے ہیںتو ضرور کسی سے مشت وگریبان ہو کر واپس آئے ہیں اب کام روزمرہ کا ہو جائے تو پھر بندہ کیا کرسکتا ہے پھر کمال بات یہ کہ جوان لڑکے ہیںرومال سر پر باندھ کر سر کو ڈھانپ کر جیسے گھوڑے کی آنکھوں پر چمڑے کا کاش ہو اسی طرح ان کو رومال میں سے دائیں بائیں نظر نہیں آتا وہ اچانک سڑک پر آ جائیں گے‘مگر اس سے پہلے کہ ان کو کچھ کہنے کےلئے منہ کھولیں وہ سپیڈ سے یوں رفو چکر ہو جائیں گے جیسے گدھے کے سر پر سینگ نہیں ہوتے ان کااسی رفتار سے پیچھا کرنا حماقت ہو گی پھر کمال یہ کہ جسے دیکھو ہم سے کہے گا کہ غلطی تمہاری ہے اس کی حمایت میں دو ایک لوگ بھی آ جائیں گے چھوڑو یار جانے دو آپ بڑے ہیں اگر ہم کسی کے ساتھ نہیں الجھے تو کوئی اور کسی اور کے ساتھ الجھا ہوا ہے سڑک پر روز یہ تماشے ہوتے ہیں پھر خاص طور پر رکشہ والوں کے ساتھ تو ہر گاڑی والا الجھا نظر آتا ہے ‘ چنگ چی والوں نے تو رکشہ والوں کو بھی معافی دلا دی ہے غلطی کس کی ہے اس کا جواب تو بہت مشکل ہے کہ آپ کو ملے ہر کوئی کہتا ہے کہ تمہاری غلطی ہے بس یاد رہے کہ سڑک پر آنا ہے تو بڑادل گردہ کر کے آنا ہوگا تب یہ نیا پار اترے گی ورنہ آپ اور گاڑی سمیت یہ کشتی یونہی بیچ منجدھار کے عین سڑک پر ڈولتی رہےگی اور وہاں گھر میں سودا سلف کے لئے انتظارمیں بیٹھے ہونگے۔