رواں ماہ کے اوائل میں ’سکرین ایکٹرز گلڈ امریکن فیڈریشن آف ٹیلی ویژن اینڈ ریڈیو آرٹسٹس (ایس اے جی‘ اے ایف ٹی آر اے)‘ نامی تنظیموں سے تعلق رکھنے والے قریب ایک لاکھ ساٹھ ہزار سے زائد افراد کی جانب سے ہڑتال کے اعلان سے امریکہ کی معروف فلمی صنعت (ہالی ووڈ) کی چمک دمک اور دل کشی کو گرہن لگ گیا ہے۔ یہ بات کہ امریکہ معاشی مواقع اور خوشحالی کی سرزمین نہیں رہی‘ اس کے کئی دیگر کاروباری اداروں اور صنعتوں کو دھچکا لگ سکتا ہے۔ احتجاج کرنے والے اداکار رائٹرز گلڈ آف امریکہ (ڈبلیو جی اے) اور ان کے قریب گیارہ ہزار اراکین بھی احتجاج میں شامل ہوگئے ہیں جو پہلے ہی سے یعنی 2 مئی سے ہڑتال پر ہیں۔ یہ 1960ءکی دہائی کے بعد ہالی ووڈ میں پہلی ’ڈبل سٹرائیک‘ ہے۔ اداکاروں اور مصنفین کے مطالبات جائز ہیں۔ وہ ایسے وقت میں سی ای اوز اور کئی ہائی پروفائل مشہور شخصیات کو لاکھوں روپے دینے کے خلاف ہیں جب کہ کارپوریشنیں بحران کا شکار ہیں اور فلمی صنعت زوال پذیر ہے۔ مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ سخت معاشی حالات میں انتظامی عہدوں پر فائز افراد کی تنخواہوں میں اضافہ نہ کیا جائے۔
غیر گلیمرس اداکاروں اور کارکنوں کی طرف سے شروع ہونے والی ہڑتال میں فران ڈریشر‘ جینیفر لارنس‘ میریل سٹریپ‘ جوکوئن فینکس‘ سوسن سارنڈن وغیرہ سمیت متعدد نامور اداکار و اداکارائیں شامل ہیں۔ میڈیا اور انٹرٹینمنٹ ہاو¿سز کے زیادہ سے زیادہ کارپوریٹائز ہونے کی وجہ سے تخلیقی صلاحیتوں اور آرٹ پر کم جبکہ منافع پر زیادہ توجہ دی گئی ہے۔ انتظامی عہدوں پر فائز کارپوریشن میں اربوں ڈالر لانے کی فکر میں رہتے ہیں اور اِس دوڑ میں ان اداکاروں اور کارکنوں کو بھی اکثر نظر انداز کر دیا جاتا ہے جن کا کام کسی پراجیکٹ کی کامیابی کے لئے ضروری ہوتا ہے۔ یہ بات کہ کارپوریشنز اور کاروباری ادارے ان کارکنوں کے ساتھ منافع بانٹنے کے لئے تیار نہیں جن کی انتھک محنت سے منافع کمایا جاتا ہے۔ یہ بات پاکستان سمیت ہر ملک کے لئے سچ ہے۔ چند سال قبل کئی پاکستانی اداکاروں نے اپنے سوشل میڈیا پیجز پر ملک کی انٹرٹینمنٹ انڈسٹری میں رائلٹی سسٹم کی عدم موجودگی کے حوالے سے بات کی تھی۔ وہ بڑے نام جو لازوال فلمیں یا گیت بناتے ہیں رائلٹی سسٹم نہ ہونے کی وجہ سے انتہائی غربت میں مبتلا رہتے ہیں اور جیسے ہی اُن کی صحت خراب ہوتی ہے تو کوئی بھی پائیدار (مستقل) مالی مدد کا آسرا نہیں ہوتا۔ ایسے اداکاروں کو اگر رائلٹی کی مد سے باقاعدگی سے آمدنی حاصل ہو تو یہ پیشرفت اُن کے لئے راحت کا باعث ثابت ہوسکتی ہے لیکن بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ حکومت سطح پر فیصلہ سازی میں انٹرٹینرز کے مالی حالات بہتر بنانے کے بارے میں زیادہ نہیں سوچا جاتا۔ یہ وہ لوگ ہیں جو کسی معاشرے میں اہم کردار ادا کر رہے ہوتے ہیں اور جو مسلسل چیلنجز کا سامنا کرتے ہیں۔ تفریحی دنیا میں کام کے کلچر میں ایک انتہائی ضروری تبدیلی کی ضرورت ہے۔ اگرچہ ہالی ووڈ کے معروف (اے لسٹ) اداکار آسانی سے اپنے مالی اثاثوں کے سہارے زندہ رہ سکتے ہیں لیکن اُنہوں نے احتجاج کی راہ اختیار کی کیونکہ یہ معاملہ فلمی صنعت کے مستقبل کا ہے اور یہ وہ نازک مرحلہ¿ فکر ہے جہاں آج سے زیادہ کل اور کل سے زیادہ آج کے بارے میں فکرمند ہونے ضرورت ہے۔