اب بھی ا س بات کو ہم پُر عیب سمجھتے ہیں کہ ہم کسی کے دروازے پر جائیں اور وہ گھر سے باہر آکر ہم سے ملے ۔ پھر پوچھے کہ آپ کتنی دیر بیٹھیں گے ۔کیونکہ میرے پاس وقت نہیںہے ۔کلائی پر باندھی ہوئی گھڑی کو دیکھے اور کہے کہ میں آپ کو پندرہ منٹ دے سکتا ہوں۔اس پر آپ برا منائیں گے اور دل میں کہیں گے مجھے تم سے ملنے کی ضرورت ہی کیا ہے۔آپ کہیں گے نہیں بس میں یہا ںسے گزر رہاتھا سوچاسلام کرتاچلوں۔ سو پھر ملیں گے ‘پھر ا س پر آپ برامان گئے اور اس کے دوست کے ساتھ تعلقات ہی منقطع کر لئے۔ آج سے تیس سال پہلے ہمارے ایک دوست ایسا ہی کرتے تھے۔ دروازے پر کسی کو بھیج کر یہ نہیں کہتے کہ وہ گھرپر نہیں ہیں۔وہ باقاعدہ باہر آتے اور خود ملتے اور پوچھتے کہ آپ کتنی دیر بیٹھیں گے میں آپ کو دس منٹ دوں گا۔ ویسے بھی کسی کے گھر بغیر اطلاع کے جانا درست نہیں۔آپ کسی کے گھر بغیر اطلاع کے گئے اور انھوں نے کہلوا دیا کہ وہ آپ سے نہیں ملنا چاہتے تو یہ ان کاحق ہے کہ وہ نہ ملیں۔ ہمارے وہ دوست بہت کم دوستوں کے یار ہیں۔ سب ایک ایک کر کے ان سے ہمیشہ کے لئے بچھڑگئے مگر ان کے پیچھے باتیں بناتے رہے ۔لیکن ہماراکمال دیکھیں ہم ان سے اب تک ناراض نہیں ہوئے ۔کیونکہ ہم معاملے کی نزاکت کو سمجھتے تھے۔ وہ دوست ڈبل ایم اے کتابوں کے رسیا کتابیں پڑھنا تو ان کی گھٹی میں گویا پڑا تھا ۔گھر میں اکیلی جان سے رہتے تھے خود پکاتے کھاتے او رجھاڑو پوچا کرتے اور خود ہی برتن دھوتے ۔۔پھر پرانے طرز کا ریکارڈنگ والا ٹیپ ریکارڈ پاس تھا درمیانی مدت کے گانے سننا ان کاشوق تھا ۔کتابوں کی لائبریری الگ اور میوزک لائبریری جدا تھی ۔حالانکہ وہ جوانی کازمانہ تھا اور اب وہ ملازمت سے ریٹائرڈ بھی ہو چکے ہیں مگر ان کے وہی طور اطوار ہیں ۔اب تو ہر گھر کے مین دروازے پر سی سی فویٹیج کیمرے لگے ہیں۔کسی کو اپنے ہی ذاتی گھر میں بھی یونہی منہ اٹھائے چلے آنے کی اجازت نہیں ہے۔ان کیمروں سے پہلے دروازے پر گھنٹی کے ساتھ مائیک بھی لگاہوتا تھا ۔مگر کم کم گھروں میں تھا ۔ اب بھی پوش علاقو ں میں یہی سسٹم ہے مگر شرط یہ ہے کہ وہاں بچوں کی
پہنچ نہ ہو ۔ وگرنہ تو بچے ہر نئی چیز کو عجوبہ سمجھ کر اس کو توڑ مروڑ دینے ہی کو بہتر جانتے ہیں۔اب تو کسی کے گھر جانا ہوا مشکل ۔دروازے پر آپ پہنچ جائیں گے اور وہ اوپر سے کیمرے میں دیکھ کر کہلوا دیں گے صاحب گھر پرنہیں ہیں ۔حالانکہ صاحب جی نے خود کیمرے میں مہمان کو دیکھا ہوگا اور مہمان کی بلا کو بھی پتا نہ ہوگاکہ مجھے کہیں سے دیکھا جا رہاہے ۔خیر میںنے تو کسی اور چیز کا ذکرکرنا ہے۔ان کیمروں کے ساتھ ساتھ وہ بھی شہر کے گھرو ںمیںاب بھی دروازوں پر موجود ہیں۔ جس کو ہندکو زبان میں ہوڑا کہتے ہیں۔یہ ہوڑگھرکے مین دروازے کی اندر کی سائیڈ پر لگاہوتا ہے ۔جس کی وجہ سے باہر سے کوئی فرد دروازہ کھول نہیںپاتا۔اس کو رسی لگی ہوتی ہے۔اگر گھر کی چار منزلیں بھی ہیں تو اسی چار منزلوں تک منگ در منگ اوپر چھت تک گئی ہوتی ہے۔اگر دروازہ کھڑکے تو کسی بھی منزل سے کوئی بھی نفر ہوڑے کی رسی کھینچ لیتا ہے۔ گھرکے جس رکن نے اندر آنا ہووہ اندر آ جاتا ہے۔جیسے بنگلوں کے دروازوں پر جا کر ایک بندہ کو گیٹ کھولنا پڑتا ہے۔جس کو گھر سے نکلنا
تھا اس کو کہہ دیتے ہوڑا یاد سے بند کر دینا اور اس کے بعد جب لوہے کے ہوڑے کے بند ہونے کی آواز آتی تو گویا ایک امن کی فضا قائم ہو جاتی ۔آج تو حال یہ ہے کہ کسی کے گھر منہ اٹھائے نہیں جا سکتے ۔مہمان داری تو چھوڑالٹا گلہ ملتا ہے کہ آنے سے پہلے فون کر دیتے۔ا س پر اکثر گھرانوں میں آج بھی برا منایا جاتا ہے۔پھر زمانہ ایسا بدلا ہے اور وقت نے ایسی کروٹ لی ہے کہ اب کسی کے پاس وقت ہو بھی تو فیش کے لئے او رجان چھڑانے کے لئے یہ کہہ دینے میں کیا حرج ہے کہ یار آج کل اتنی مصروفیت ہے کہ وقت ہی نہیں ملتا ۔پھر ویسے بھی فی زمانہ پہلے سے فون کر کے کسی کے گھر جانا زیادہ بہترہے ۔اس میں اپنا ہی فائدہ ہے ۔کیونکہ اچانک جانے سے اگلا پریشان ہو سکتا ہے۔وہ آپ سے مل کر گپ شپ لگا ئے گا یا جا کرآپ کے لئے سودا سلف لائے گا ۔ اس لئے بہتر یہی ہے کہ جس کے گھر جائیں ا ن کو آپ کے آنے کی بابت اور آنے کا ٹائم تک معلوم ہو ۔اپنا فائدہ اس لئے ہے کہ وہ آپ کواکیلا چھوڑکر آپ کی مہمانداری او رخاطر تواضع کے لئے کھانے پینے کی چیزیں خریدنے چلا جائے گا ۔گویا بغیر اطلاع کے دوسرے کے گھر جانا دوسرے کو پریشان کرنے والی بات ہے۔