پاکستان اینڈوکرائن سوسائٹی نے ملک میں بڑھتی ہوئے ذیابیطس (شوگر) کے مرض کی طرف توجہ دلاتے ہوئے شوگر کا باعث بننے والی اشیائے خوردونوش سے پرہیز‘ صحت مند معمولات ِزندگی اپنانے اور معیاری علاج کے لئے ہدایات (گائیڈ لائنز) جاری کی ہیں۔ لمحہ فکریہ ہے کہ ملک کے دیگر حصوں کی طرح خیبرپختونخوا میں بھی پولی جینک بیماری تیزی سے پھیل رہی ہے جس کے مجموعی طور پر سات لاکھ مریض ہیں۔ سوسائٹی کی جانب سے جاری کردہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان میں بیس سے چالیس سال عمر کے افراد ’ٹائپ ٹو ذیابیطس‘ کا شکار ہو رہے ہیں جس کی وجہ غیر صحت مند طرز زندگی‘ غیر صحت بخش غذا اور انتہائی میٹھے مشروبات کا استعمال ہے جبکہ جسمانی طور پر محنت مشقت کی کمی (غیر فعالیت) کی وجہ سے بھی شوگر کا مرض پھیل رہا ہے۔ سوسائٹی کے مطابق خیبر پختونخوا میں تقریبا ًدو لاکھ افراد ذیابیطس مرض کی ابتدائی شکل میں مبتلا ہیں اور اگر احتیاطی تدابیر اختیار نہ کی گئیں تو یہ تعداد بڑھ سکتی ہے۔ سوسائٹی نے ملک کے دو شہروں میں ٹائپ ٹو ذیابیطس اور کارڈیو میٹابولک سنڈروم سے بچنے کے لئے ہدایات پر مبنی رہنما خطوط جاری کئے ہیں تاکہ ذیابیطس کے مریضوں کی معذوری اور قبل از وقت موت کو روکا جا سکے۔ بنیادی ضرورت اِس غلط فہمی کے ازالے کی ہے کہ عام آدمی ذیابیطس (شوگر) کو مرض سمجھتا ہی نہیں جبکہ حقیقت یہ ہے کہ یہی مرض بہت سے دیگر امراض کی جڑ ہے اور اگر تھوڑے علاج اور زیادہ احتیاط سے کام لیا جائے تو شوگر پر اِس صورت قابو پایا جا سکتا ہے کہ اِس کی وجہ سے انسانی زندگی کو خطرہ لاحق نہیں ہوگا۔ خاص بات یہ ہے کہ مذکورہ رہنما خطوط ان لوگوں کے سماجی و اقتصادی حالات کے پیش نظر تیار کئے گئے ہیں جن میں سے زیادہ تر مہنگے علاج کے متحمل نہیں ہوسکتے ہیں۔ پاکستان اینڈوکرائن سوسائٹی نے خیبرپختونخوا میں تیزی سے پھیلنے والی بیماریوں سے خبردار کرتے ہوئے کہا ہے کہ مذکورہ رہنما اصولوں سے علاج معالجہ بھی بہتر ہو گا اور اِس سے پائی جانے والی مرض کے پھیلنے میں بھی کمی آئے گی اور جنرل پریکٹیشنرز کو ذیابیطس کا مؤثر طریقے سے علاج کرنے میں مدد ملے گی۔ ’ٹائپ ٹو‘ کہلانے والا ذیابیطس کا علاج و نگہداشت اِس لئے بھی ضروری قرار دی گئی ہے کیونکہ اِس کی وجہ سے ذیابیطس میں مبتلا افراد میں معذوری اور قبل از وقت اموات ہوتی ہیں جبکہ اِن کی روک تھام ممکن ہے۔ پاکستان میں تقریباً ساڑھے تین کروڑ لوگ ’ٹائپ ٹو ذیابیطس‘ سے متاثر ہیں اور مریضوں کی اکثریت اِس مرض کے ماہر معالجین (کنسلٹنٹس اور اینڈوکرائنولوجسٹ) تک رسائی نہیں رکھتے۔ اِس صورتحال کو دیکھتے ہوئے عام معالجین کے لئے ہدایات نامہ (گائیڈ لائنز) تیار کی گئی ہیں تاکہ جنرل پریکٹیشنرز‘ انٹرنل میڈیسن فزیشنز اور ینگ ڈاکٹرز بھی بین الاقوامی گائیڈ لائنز اور جدید ترین طریقوں کے مطابق ذیابیطس کا علاج کرنے کے قابل ہو سکیں۔ ذیابیطس کے خلاف جنگ وہی مریض جیت سکتے ہیں جن کی قوت ارادی بہت زیادہ ہو اُور اِس مرض سے افاقہ صرف اُسی صورت ہوتا ہے جبکہ متاثرہ مریض اپنا وزن کم کرے۔ سوسائٹی کے مطابق اگر کوئی مریض اپنے طرز زندگی میں تبدیلی لائے تو وہ بڑھے ہوئے وزن کو پندرہ سے بیس کلو گرام تک کم کر سکتا ہے جس کے لئے ادویات لینے کی ضرورت نہیں ہوتی اور صحت مند طرز زندگی ذیابیطس کی پیچیدگیاں روکنے میں مددگار ثابت ہو سکتی ہے۔