موسم سہانا

 موسم میں سختی ہو تو یہ کرختگی مزاجوں میں بھی در آتی ہے۔ بندے کا موڈ ویسے ہی خراب رہتا ہے۔ موسم کا انسان کے دل و دماغ پر بہت برا اثر پڑتا ہے۔ بعض لوگ جب تک سورج شام کو ڈھل نہ جائے تند مزاج رہتے ہیں۔ جب شام اپنے گیسو بکھیرنے لگتی ہے تو ان کی طبیعتوں میں بھی نرم مزاجی کا ٹانکا لگنے لگتا ہے۔مگر جب موسم خوشگوار ہو پُر بہار ہو ترو تازہ ہو تو دن کو بھی جب سورج بادلوں کے پردوں کے پیچھے چھپ چھپ کر زمین زادوں کو دیکھنے کے لئے تڑپتا ہے تو اس وقت زمین کے رہنے والے بھی طبیعت میں اخلاق محسوس کرتے ہیں اور ان کو ہنس کر بات کرنے کا سلیقہ آ ہی جاتا ہے۔موسم کا آدمی پر بہت اثر پڑتا ہے۔موسم اچھا ہو تو یونہی موڈ اچھا ہو جاتا ہے۔ اب گذشتہ روز دن دس بجے جب ہلکی بوندا باندی سٹارٹ ہوئی تو سڑکوں پرچہل پہل نظر آنے لگی۔حالانکہ اس سے پہلے راہ رستوں میں دھوپ اپنی جلن جیسے کسان اپنے کھیت کھلیان میں کھاد کا تھیلا لے کر کھاد نچھاور کرتا ہوبکھیررہی تھی۔شہری گھروں میں محصور تھے۔ کئی ہفتوں سے پشاور منتظر تھااور بقول اقبال کہتا تھا ”ابرِ نیساں یہ تنک بخشی ئ شبنم کب تک۔تیرے کہسار کے لالے ہیں تہی جام ابھی“۔پورے ارضِ وطن کی سوہنی دھرتی پر بادل اپنی جان تک نچھاور کر رہے ہیں۔ گاہے لوگوں کی جان بھی اس میں گئی مگر جل تھل مچا رہا۔ہمسایہ ملک میں تو بارش نے وہ تباہی مچا دی کہ بھینسوں کو بھی سیلابی ریلا بہا کر لے گیا۔ خیر ہمارے وطن میں جہاں ہر سُو ابرِباراں کے نظارے ہیں وہاں پشاور سوکھا اورپھیکا رہا۔پہلے بارش ہوئی تو ضرور مگر پشاور کے قرب و جوار میں اپنی بہار دکھلاگئی تھی وہ بہار کہ جس کے جوبن میں خزاں نے لوٹ مچا دی۔ہلکی بوندا باندی میں شاید ہی کوئی کملایا ہوا دل ہو جس کو گھومنا پھرنا پسند نہ ہو وگرنہ تو اس رم جھم میں بائیک اٹھا کر بیس کی سپیڈ سے جائیں تو مزا آئے۔ہمیں تو اس طرح گھومنا پھرنا بہت بھلا لگتا ہے۔ اپنی اپنی پسند ہے اپنا نصیب ہے۔کسی کو ”دیواروں سے باتیں کرنا اچھا لگتا ہے۔ہم بھی پاگل ہو جائیں گے ایسا لگتا ہے“۔مگر کچھ اسی طبیعت کے لوگ پھر پیدل ہو ں یا گاڑی میں ہوں بارش سے لطف لینے کو سڑکوں پر کھڈوں میں کھڑا پانی اُڑاتے جاتے ہیں۔اب بوندا باندی شروع ہوئی تو کھیتوں کھلیانوں والے علاقوں میں لوگ گھروں سے نکل آئے۔ ہم بھی وہاں موجود تھے۔مگر ہم اپنے
 ہوا کے گھوڑے پر رواں دواں تھے۔سبزہ اپنی بہار الگ دکھلا رہا تھا پاس بہتی ہوئی نہر کی وجہ سے منظر دیدنی تھا۔ اوپر بادل اور چھم چھم برستی ننھی بارش کی بوندیں نیچے شہریوں نے اپنے موبائل نکال کر آر پار کی مووی بنانا شروع کر دی۔فیض کے وہ بیت یاد آئے ”رات یوں دل میں تیری کھوئی ہوئی یاد آئی۔جیسے ویرانے میں چپکے سے بہار آجائے۔جیسے صحراؤں میں ہولے سے چلے بادِنسیم۔جیسے بیمار کو بے وجہ قرار آ جائے“۔ یہ اچھے موسم کے ساتھ دل و دماغ کو بے وجہ قرارآ جاتا ہے۔اسی طرح ہولے سے بوندا باندی ہونے لگی تو اتفاق سے اس کی پہلی کڑی کو ہم نے چہرے پر محسوس کیا تو ناصر کاظمی کا وہ شعر یاد آیا ”تیرے آنے کا دھوکا سا رہا ہے۔دیا سا رات بھر جلتا رہا ہے۔سنا ہے رات بھر برسا ہے بادل۔مگر وہ شہر
 جوپیاسا رہا ہے“۔ مگر اس موسم میں وہ بہت یاد آئے جن کو اپنی غربت کے کارن اس نشیلی رُت سے کوئی سروکار نہیں۔ وہ بہت یاد آئے جو کلو آٹے کے لئے برسرِ پیکار ہیں۔ ان کے آگے موسم کی بات کرنا بیکار ہے۔جن کو چودھویں رات کا مکمل گول ٹکیہ سا چاندبھی ایک عدد روٹی نظر آتا ہے۔ان کوبھلا موسم کی سختی اور اس کی ملائمت کیا کہے گی ان کے آگے کیا گیت گائے گی۔ان کو ان شاعرانہ اور نیم شاعرانہ باتوں سے کیا لینا دینا۔بقول پشاور کے عزیز اعجاز ”جیسا موڈ ہو ویسا منظر ہوتا ہے۔موسم تو انسان کے اندر ہوتا ہے“۔ مقصد یہ کہ دل کی بہار اچھی ہوتی ہے یا باغ کی بہار بھلی ہوتی ہے۔موسم کتنا بھی نیارا ہو جائے دل کو کتنا پیارا ہو جائے جو دل کملائے ہیں مرجھائے ہیں ان کو کون خوشی کی گھڑیاں دلا کر ٹاٹنا کرے گا ان کی ٹہنیاں تو یونہی جھک کر ٹوٹنے کو تیار ہوں گی۔فکر کیجئے کہ بندہ قضا نہ ہوجائے۔کیونکہ خدمت کی قضا نہیں ہے۔دکھی انسانوں کو کچھ خوشیاں اپنے حصے میں سے قینچی سے کاٹ کر دے دیں۔تاکہ ان گھرانوں میں جہاں غربت کا راج ہے وہاں کچھ لمحات خوشی کی چاندی اپنی جھلک دکھلادے۔جہاں ناصر کاظمی کے کہنے کے مطابق ”ہمارے گھر کی دیواروں پہ ناصر۔ اُداسی بال کھولے سو رہی ہے۔نہ سمجھو تم اسے شورِ بہاراں۔خزاں پتوں میں چھپ کے رو رہی ہے“۔موسموں کے مزے لینا تو ٹھہرا مطمئن دلوں کے انداز و اطوار۔بے سکون اور بے قرار دلوں کو ان ٹھنڈی ہواؤں سے کیا واسطہ ان سے کیا سروکار۔یہ ہواتو الٹا ان کے زخموں کو اپنی ٹھنڈک سے سخت بنا کر ایک بار پھر چیر ڈالتی ہے۔بقول جوش ملیح آبادی”دل کی چوٹوں نے کبھی چین سے رہنے نہ دیا۔جب چلی سرد ہوا میں نے تجھے یاد کیا“۔