ایک اچھی خبر

جان شیر خان کی ریٹائرمنٹ کے بعد سکواش کے کھیل میں پاکستان کی کامیابیوں کا تسلسل ٹوٹ گیا تھا اس لیے اگلے روز جب پاکستان کے حمزہ علی خان نے اس جمود کو جونیئر ورلڈ سکواش چمپئن بن کر اپنی فتح سے توڑا تو یہ امید پیدا ہو گئی کہ شاید سکواش کے کھیل کی دنیا میں ایک مرتبہ پھر ہم نام کمانے لگیں ۔حیرانگی کی بات یہ ہے کہ حمزہ علی خان کا تعلق بھی اسی علاقے سے ہے کہ جس نے ہاشم خان، اعظم خان، روشن خان اور قمر زمان جیسے نابغے پیدا کئے جن کی اگلی نسل پھر جہانگیر خان اور جان شیر خان کی شکل میں آگئی۔ نواں کلی وہ گاﺅں ہے کہ جس نے سکواش کے کھیل میں دنیا میں سب سے زیادہ نابغے پیدا کئے۔ریلوے کی نشاة ثانیہ وقت کا تقاضہ ہے کیونکہ دنیا بھر میں ریلوے کو آسان اورسستے ذریعہ نقل و حمل کے طور پر استعمال میں لایا جارہا ہے ۔ برصغیر میں فرنگیوں نے ریلوے پٹڑی آج سے 150 برس قبل 1861 میں بچھانا شروع کی۔ بہت کم لوگوں کو پتہ ہے کہ برصغیر کے بٹوارے کے وقت پاکستان ریلویز ملک کا سب سے بڑا منافع بخش ادارہ تھا ۔ہمیں وہ وقت بھی یاد ہے کہ ریل گاڑی میں گورنر جنرل، صدر ،وزیر اعظم اور وزراءحضرات اور افسران تواتر کے ساتھ سفر کیا کرتے تھے۔ ان کے سفر کے لئے ریل گاڑی کے ساتھ ایک علیحدہ ڈبہ لگا دیا جاتا تھا جسے سیلون کہا جاتا جو ہرطرح کی ضروری سہولیات سے لیس ہوتا، ایک ایسا بھی وقت تھا کہ ریلویز میں ایک لاکھ 35 ہزار ملازمین کام کرتے تھے جو اب گھٹ کر 62 ہزار رہ گئے ہیں۔ اگر آپ دنیا کے دیگر ممالک میں چلنے والی ریل گاڑیوں کے نظام پر ایک نظر ڈالیں تو آپ کو معلوم ہو گا کہ ان کی ستر فیصد آمدنی فریٹ سروس یعنی مال گاڑی کے ذریعے لوگوں کے تجارتی سامان کو ایک شہر سے دوسرے شہر بجھوانے سے ہوتی ہے جب کہ پاکستان میں ریلویز کو صرف 15 فیصد انکم فریٹ سروس سے ہوتی ہے۔سچ تو یہ ہے کہ کسی نے بھی صدق دل سے یہ کوشش ہی نہیں کی کہ تاجروں کو اس طرف راغب کیا جاتا کہ وہ اپنا تجارتی سامان ملک کے اندر دوسرے شہروں میں بجھوانے کے لئے ریلوے کی مال گاڑیوں کی خدمات سے استفادہ حاصل کریں ۔ ایک تو یہ عمل ان کو اپنا سامان ٹرکوں کے ذریعے بھیجنے سے سستا پڑے گا اور دوسرا یہ کہ وہ محفوظ طریقے سے مطلوبہ جگہ پر پہنچ جایا کرے گا ۔اسی طرح اگر روز،اوّل سے ہی ہر شہر کے اندر سرکلر ریلوے کے نظام کو استوار کیاجاتا تو عوام کوایک سستی سفری سہولت میسر آ جاتی اور وہ ٹیکسیوں کے ذریعے سفرپر بے پناہ اخراجات کرنے سے بچ جاتے ۔مختصر یہ کہ فرنگی قیام پاکستان کے وقت ورثے میں ریلویز کو بڑی اچھی حالت میں ہمارے لئے چھوڑ گئے تھے جس کو ہم نے سنبھالنے کے بجائے ناکارہ کر دیا ہے ۔ پر ابھی وقت پوری طرح ہمارے ہاتھ سے نکلا نہیں چین سی پیک کے تحت پاکستان کے اندر ریلوے کے نظام کو جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے بہتر کر رہا ہے۔ چین کی اس امداد سے بھرپور فائدہ اٹھایا جائے نہ صرف یہ کہ ملک کے تمام صوبوں کو ریلوے کے ذریعے لنک کرناضروری ہے اس بات کی بھی اشد ضرورت ہے کہ ملک کے تمام بڑے شہروں کے اندر سرکلر ریلوے کا نظام ہو تاکہ عام آدمی کو سستی سفری سہولیات مل سکیں ۔ اس کے ساتھ جس چیز کی طرف خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے وہ یہ ہے کہ ریلوے کی زمین پرجو تجازوات کی گئی ہیں ان کا خاتمہ کیا جائے ۔