فیض کا وہ شعر یاد آتا ہے ” دل نا امید تو نہیں ناکام ہی تو ہے۔ لمبی ہے غم کی شا م مگر شام ہی تو ہے“۔فیض ہی کا شعر ہے ” بلا سے ہم نے دیکھا تو اور دیکھیں گے فروغِ گلشن و صوتِ ہزار کا موسم“۔ اگر اچھے دن دیکھنے میں ہمیں زمانہ لگے تو وہ ون بھی دور نہیں جب ہماری آئندہ نسلیں خوشحالی کے دن دیکھیں گی۔سو اس وقت اگر ملک کڑے وقت سے گزر رہا ہے تو آنے والا کل ضروری نہیں کہ آ ج کے دن کی طرح زبوں حال ہو ۔آنے والے دن یقینا اچھے آئیں گے ۔سو امید پر دنیا قائم ہے اور سارا نظام امید ہی کی وجہ سے تو چل رہا ہے۔دل کی کٹیا میں ایک موہوم سا دیا جل رہا ہے جس کا نام امید ہے جو خوشحالی اور ترقی کی راہ میں مزید روشنی کر کے بھولے ہو©¶ں کی راہ ہموار کرتا ہے۔سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا ۔ قوموںاور ملکو ں کو برے حالات سے نکلتے ہوئے ایک لمباعرصہ لگ جاتا ہے۔بہت سے ملکوں کے ساتھ ایسا ہی ہوا ہے۔جہاں بیماری ہوتی ہے وہا ںعلاج بھی تو ہوتا ہے مگر تلاش کرنا پڑتا ہے ۔جہاں کانٹے ہوتے ہیں وہاں پھول بھی تو موجود ہوتے ہیں ۔ ہم نے بس کانٹوں پرنگاہیں زخمی کرنے کی ٹھان لی ہے ۔پھولوں کی طر ف سے ہمار ا دھیان ہٹنے لگا۔ہمارے ڈ ھیر سارے مسائل شاید اس وجہ سے بھی ہیں کہ ہم نے زندگی کو بجلی سے جوڑ دیا ہے، ایک وقت تھا کاہ بجلی نہیں تھی، ہم سے پہلے لوگوں نے اس دور میں بھی خوب آرام اور سکون سے زندگی گزاری ہے ۔اس وقت بھی سردی اور گرمی کے موسم تھے، نہ سردیوں سے کوئی شکایت تھی نہ گرمیوں سے کوئی نالاں تھا، ہر موسم میں وقت گزارنے کے طور طریقے ان کوآتے تھے۔اب تو انداز ہی بدل گیا ہے۔ ہر جا ایک الگ جہان ہے ۔کوئی بیمار جہان ہے ۔ہسپتال جا¶ تو یوں لگتا ہے کہ سارا شہر بیمار ہو چکا ہے قبرستانوں کے پاس سے گزرو تو اسی طرح کے جذبات ہوتے ہیں۔ساغر صدیقی یاد آئے ” زندگی جبرِ مسلسل کی طرح کاٹی ہے ۔جانے کس جرم کی پائی ہے سزا یاد نہیں“۔اس دو ر کا تذکرہ بھی کیا جب بجلی نہیں تھی اور لوگ خوب آرام و سکون سے زندگی بسر کر رہے تھے اور اب موجودہ حالات کی بات ہوجائے جہاں بجلی کے بغیر گزارا بھی تو نہیں کوئی اگر اے سی نہ بھی لگائے تو وافر مقدار میں رقوم کا بل نئے ٹیکس اور نئے نرخ نامہ کے ساتھ ادا کرنا ہوگا ۔سب سے سستی بجلی پن بجلی ہے جو پانی سے بنتی ہے ۔وگرنہ تو پٹرول گیس اور دوسرے طریقوں سے بجلی حاصل کی جاتی ہے۔ افسوس ہمارے ہاں کتنے لوگ صاحب اقتدار ہوئے مگر انھوں نے ڈیم بنانے کی طرف توجہ نہ دی ۔بیس سال سے تو یقینی یہ مسئلہ اپنی جگہ سر اٹھائے ڈس رہاہے ۔مگر تھوڑا او رپیچھے جا©ئیں تو تیس سالوں پہلے بجلی کی لو ڈ شیڈنگ کا تصور بھی نہ تھا۔ کبھی کبھار آدھ گھنٹہ کے لئے بجلی چلی جائے تو ممکن تھا مگر یہ جو مسئلے مسائل اب پیدا ہوئے ہیں پہلے نہ تھے۔ پہلے تو گیس وافر تھی او رہر گھر میں تھی ۔ اگرچہ کہ بجلی نہ تھی مگر اب تو گیس ہی نادر و نایاب ہو چکی ہے ۔سردیوں میں گیس کی ضرورت زیادہ ہوتی ہے ۔اس بارے میں کہا جاتا تھا کہ سردی کی وجہ سے محلول گیس ہے پائپوں میں برف کی طرح جم جاتی ہے ۔مگرآج کل گرمیوں میں کیا ہے ۔وہ برف تو پگھل چکی ہے۔پھر گیس کیوں نہیں ۔” گر یہی اندازِ تجارت ہے توکل کا تاجر۔ برف کے باٹ لئے دھوپ میں بیٹھا ہوگا“۔سر جوڑ کے تو سب بیٹھے ہیں او ربیٹھتے ہیں مگر مسئلہ اگر سمجھ میں آ جائے تو اس کا حل سجھائی نہیں دیتا۔بس وہ شعر یاد آتا ہے کہ ” انشاءجی اٹھو اب کوچ کرو ۔ اس شہر میں جی کا لگا نا کیا۔مگر بات اتنی مایوسی کی بھی نہیں کیونکہ بہت سارے ایسے معاملات ہیں جو ماضی کے مقابلے میں زیادہ سلجھ گئے ہیں اور اس میں کردار جدید ٹیکنالوجی کا بھی ہے جس نے مشکل کاموں کو آسان بنا دیا ہے اور دوسری بات یہ کہ اگر کوئی ماحول کے ساتھ اپنے آپ کو ایڈجسٹ کرلے تو اسے مشکلات کی بجائے آسانیاں ہی آسانیاں دیکھنے کو ملتی ہیں۔