ماڈرن ٹیکنالوجی کی قباحتیں

    1964میں جب وطن عزیز میں ٹیلیویژن کا ظہور ہوا تو کہا گیا کہ ٹیلی ویثرن سیٹ کو دیکھنے کے لیے کم از کم بارہ فٹ کا فیصلہ رکھا جائے کہ اس سے ناظرین کی آنکھوں پر بر اثر پڑ سکتا ہے۔ اب تو بچہ ہو کہ بوڑھا ہر ایک کے ہاتھ میں ٹیلی ویژن کی سکرین سے کئی درجہ چھوٹی سکرین والا موبائل فون آپ کو نظر آئے گا۔ یہی وجہ ہے کہ صغیر سنی میں ہی بچوں کو نظر کی عینکیں لگنی شروع ہو گئی ہیں۔ دوسری بڑی قباحت کہ جس کی طرف اس ملک کے ارباب بست و کشاد مناسب توجہ نہیں دے رہے وہ سوشل میڈیا پر ہر طرح کے مواد کی موجودگی ہے جن تک ہر عمر کے افراد کی رسائی ہے ،خاص طور پر بچوں کیلئے پر تشدد تک رسائی ان کیلئے نفسیاتی مسائل کا باعث بنتی ہے ۔ ایک نہایت ہی مستند بین الاقوامی سروے کے مطابق دنیا کے 69 ممالک ایسے ہیں کہ جن کے باسی اجناس کی کمی کے باعث خوراک کی کمی اور فاقہ کشی کا شکار ہو سکتے ہیں اس ضمن میں مالی طور پر  خوشحال ممالک کو اقوام متحدہ مجبور کرے کہ حفظ ماتقدم کے طور پر وہ ابھی سے ان ممالک کو وافر تعداد میں اجناس بجھوائیں تاکہ بھوک کے ہاتھوں لوگوں کو موت کے منہ میں جانے سے بچایا جا سکے۔اگر یہ خبر درست ہے کہ امریکی وزارت خارجہ کے ایک سینئر افسر نے یہ کہا ہے کہ دوست بدلے جا سکتے ہیں ہمسائے نہیں تو یہ پھر واقعی امریکہ کی سوچ میں بڑی تبدیلی کی علامت ہے۔ امریکہ کو پھر یہ تسلیم کر لینا چاہئے کہ پاکستان اپنے ہمسایہ ممالک جن میں ایران روس اور چین سر فہرست ہیں کو کبھی بھی امریکہ کے یا کسی اور کے کہنے پر بدل نہیں سکتا،اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کا یہ بیان چشم کشا ہے کہ دنیا میں 78 کروڑ لوگ بھوکے ہیں اور عالمی غذائی نظام ٹوٹ چکا ہے۔ اس حقیقت کے تناظر میں یہ خبر پڑ کر ہر حساس دل کے مالک کو مزید تکلیف ہوتی ہے کہ غربت سے ایک طبقہ تو حد درجہ متاثرہے تو دوسری جانب مہنگے ترین ریستورانوں پر ایڈوانس بکنگ کے بعد ہی ٹیبل اور کھانا ملتاہے۔یعنی ایک طرح سے طبقاتی تقسیم زوروں پرہے۔امریکہ کی وزارت خارجہ کے نہایت ہی ذمہ وار حکام کے تازہ ترین بیانات سے پتہ چل رہا ہے کہ امریکہ یوکرین کی ہلہ شیری سے باز نہیں آنے والا اور روس اور یوکرین کے درمیان جنگ ختم ہوتی نظر نہیں آ رہی۔ امریکہ نہ صرف یہ کہ یوکرین کو ٔ16 جنگی طیاروں سے لیس کر رہا ہے وہ اس کے پائلٹوں کو ضروری تربیت بھی فراہم کر رہا  ہے۔ دریں اثنا یہ خبر بھی آئی ہے کہ یوکرین نے اپنے اس پچاس فیصد علاقے پر دوبارہ قبضہ کر لیا ہے کہ جو حالیہ جنگ میں روس نے اپنے زیر تسلط کر لیا تھا، روس کے صدر پیوٹن کو ان کے خلاف حالیہ فوجی بغاوت سے ایک دھچکا تو ضرور لگا تھا پر انہوں نے کمال پھرتی اور اعلی حکمت عملی سے اس پر جلد قابو پا لیا ۔ سچ تو یہ ہے کہ روسی عوام ان کو اس لئے پسند کرتے ہیں کہ وہ ان سابقہ وسطی ایشیا ءکی ریاستوں کو دوبارہ روس سے جوڑنے اور سوویت یونین کا حصہ بنانے کی کوشش کے درپے ہیں کہ جن کو امریکہ نے سوویت یونین سے جدا کر دیا تھا۔کمیونسٹ ورلڈ کی یہ خوش قسمتی ہے کہ آج چین اور روس ایک پیج پر ہیں جس کی وجہ سے روس اور چین کے خلاف امریکہ کی کوئی سازش کامیابی سے ہم کنار نہیں ہو رہی۔اس لئے تو امریکہ کی کوشش ہے کہ چین اور امریکہ میں غلط فہمی پیدا کرے تاہم اسے کامیابی ملنے کا امکان نہ ہونے کے برابر ہے ۔