سکواش کے منظرنامے پر پاکستان کی حکمرانی کا سنہرا دور طویل عرصے تک جاری رہا اور سینتیس سال بعد اُمید پیدا ہوئی ہے کہ پاکستان کے کھلاڑی پھر سے سکواش پر راج کریں گے۔ پشاور سے تعلق رکھنے والے سترہ سالہ حمزہ خان امید کی کرن‘ پاکستان کی شان اور پشاور کی ایک منفرد پہچان بن گئے ہیں۔ میلبورن میں جاری ورلڈ جونیئر سکواش چیمپیئن شپ میں حمزہ خان نے انفرادی ٹائٹل جیتا اور یہ 37 سال میں پاکستان کے لئے سکواش کا کوئی بھی اعزاز حاصل کرنے کا پہلا موقع ہے یقینا حمزہ خان کے لئے اِس جیت کے ساتھ یہ منفرد اعزاز بھی اہمیت کا حامل ہے۔ اُنیس سو چھیاسی کی بات ہے جب جان شیر خان نے آسٹریلیا کے شہر برسبین میں ورلڈ جونیئر کا تاج جیتا تھا۔ اس کے بعد سے بہت سے پاکستانی کھلاڑیوں کو ٹائٹل کے لئے فیورٹ قرار دیا گیا لیکن وہ عظیم کھلاڑی ’جان شیر خان‘ جیسا کھیل پیش نہیں کر سکے۔ حمزہ نے فائنل میں پندرہ سالہ مصری کھلاڑی زکریا کو شکست دے کر پاکستان کے لئے سکواش کا اعزاز حاصل کرنے کا طویل انتظار ختم کیا ہے۔ حمزہ نے پہلا گیم دس بارہ سے ہارنے اور دوسرے گیم میں پانچ صفر کی برتری حاصل کرنے کے بعد کھیل میں واپسی کی۔ انہوں نے مسلسل تین گیمز جیت کر پاکستان کو طویل عرصے بعد پہلا عالمی سکواش ٹائٹل دلایا جو مبارکباد کا محل ہے۔حمزہ کے ٹائٹل جیتنے پر ملک بھر میں جشن منایا گیا اور ہر طرف سے مبارکبادوں کا سلسلہ جاری رہا‘ وزیر اعظم شہباز شریف کی قیادت میں تقریب ہوئی جبکہ دس مرتبہ برٹش اوپن چیمپیئن رہنے والے جہانگیر خان نے بھی حمزہ شہباز کی کامیابی کو سراہا۔ ان کی جیت یقینی طور پر جشن منانے کی بڑی وجہ ہے لیکن ورلڈ جونیئر ٹائٹل جیتنا ایک ٹاپ کلاس کھلاڑی کے کیریئر میں صرف ایک قدم ہے۔ حمزہ کو اب بڑے اہداف پر اپنی نظریں مرکوز کرنی چاہئیں جن میں پروفیشنل سرکٹ پر ورلڈ اوپن جیسے سرفہرست
ایونٹس شامل ہیں‘ ایسا کرنے کےلئے حمزہ کو حکومت کی طرف سے ہر قسم کی مدد کی ضرورت ہوگی جس میں بہترین تربیت اور عالمی معیار کے مطابق سہولیات شامل ہیں‘ پاکستان میں سکواش کے کھیل کو بہت ہی کم توجہ دی جاتی ہے اور ایسی مثالیں بھی موجود ہیں جن میں پاکستان کے کھلاڑی عالمی مقابلوں میں شریک بھی نہیں ہوتے‘ بہرحال ورلڈ جونیئر ٹائٹل جیت کر حمزہ نے ثابت کر دیا ہے کہ ہمارے ہاں اہلیت کی کوئی کمی نہیں اور حمزہ سمیت کئی دیگر کھلاڑی بھی عالمی معیار کا کھیل پیش کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ اگر وہ جہانگیر اور جان شیر خان جیسے اپنے کھلاڑیوں کے نقش قدم پر چلیں تو بین الاقوامی سکواش میں پاکستان کا کھویا ہوا مقام دوبارہ حاصل کر سکتے ہیں‘پچاس کی دہائی سے شروع ہونےوالی پانچ دہائیوں میں‘ پاکستانی کھلاڑیوں نے بین الاقوامی سکواش پر غلبہ قائم کئے رکھا لیکن نوے کی دہائی کے اواخر سے اِس کھیل کا زوال شروع ہوا‘ اُنیس سو چھیانوے میں جان شیر خان کے ریکارڈ آٹھویں ٹائٹل کے بعد سے کوئی بھی پاکستانی کھلاڑی ورلڈ اوپن نہیں جیت سکا اور اب حمزہ سے اُمید ہے کہ وہ پاکستان کےلئے ورلڈ اوپن ٹرافی جیت لائیں گے لیکن ایسا کرنے کے لئے اُنہیں حکومتی سرپرستی (توجہ) کی ضرورت ہوگی۔ ورلڈ جونیئر ٹائٹل حاصل کرنا بھی آسان نہ تھا لیکن ورلڈ اوپن جیتنا کہیں زیادہ بڑا ہدف ہے جس کے لئے سفر کا آغاز ہو گیا ہے اور حمزہ نے ایک بڑی کامیابی کے لئے قدم بڑھا دیا ہے جوپورے ملک کیلئے اوربالخصوص پشاور کے لئے باعث فخر ہے۔ایک اور خوشخبری بھی اگر قارئین سے شیئر کی جائے تو کوئی مضائقہ نہیں، تازہ ترین پیش رفت یہ ہے کہآئی سی سی ٹیسٹ چیمپئن شپ 25-2023کے لیے پاکستان نے پوائنٹس ٹیبل پر پہلی پوزیشن سنبھال لی ہے ‘انٹرنیشنل کرکٹ کونسل نے منگل کو بھارت اور ویسٹ انڈیز کے درمیان دو ٹیسٹ میچز کی سیریز مکمل ہونے پر ٹیسٹ چیمپئن شپ کےلئے پوائنٹس ٹیبل پر ٹیموں کی تازہ ترین پوزیشن جاری کر دی ہے‘ پاکستان اور سری لنکا کے درمیان دو ٹیسٹ میچز کی سیریز کے پہلے میچ میں کامیابی کے بعد بابر الیون کی پوائنٹس ٹیبل پر 12پوائنٹس کے ساتھ پہلی پوزیشن ہے ۔