مٹی کے تیل کے چولھے

 ہمارے ہاں تو سردیوں میںگیس کے سلینڈر کو پہلو میں رکھ کر بیٹھ جاتے ہیں۔اتنا قریب کہ جیسے کسی نے لیپ ٹاپ گود میں رکھا ہو۔چونکہ سردیاں ہوتی ہیں اس لئے ہلکاسا شعلہ جلاکر اس پرآگ پر ہاتھ تاپتے ہیں۔ ڈر جھجک تو نام کو نہیں کہ خدا نہ کرے سلینڈر کہیں پھٹ نہ جائے ۔بلکہ پریشر ککر کے پھٹنے کے واقعات تو ہمارے ہاں دو ایک مرتبہ ہو بھی چکے ہیں۔آٹھ کلو کے سلینڈر کو لیپ ٹاپ کی طرح سردی میں پہلو میں رکھ لینا بھی بہت دل گردے کا کام ہے اور یہ کام بڑے دل کے ساتھ ہمارے ہاں ہوتا ہے ۔اب بھی بعض گھروں میں سلینڈر پھٹنے کے واقعات اخباروں میں پڑھتے ہیں ۔مگرمجال ہے کہ ان خواتین کے ماتھے پر پسینہ تک آئے ۔بلکہ مٹی کے تیل والے پمپ والے چولھے بھی ہمارے عزیزوں کے ہاں وافر مقدار میں ملتے تھے۔ شرار سے نیلاشعلہ ان کی ہنڈیا بھی پکاکر تیار دیتا ۔ویسے نیلے شعلے کی ہانڈی کا مزا اور ہی ہوتا ہے۔لیکن اگر چولھا خراب ہو تو وہ لال شعلہ دے گا جس سے برتن کالے ہوںگے او رخاتونِ خانہ کو پریشانی اٹھانا پڑے گی۔پھر جب سلینڈر آ گئے تو اب سنا ہے کہ سوئی گیس والے اس محکمے کی پھوڑی لپیٹ لیں گے اور گھر گھر بڑے بیس بیس کلو والے سلینڈر سپلائی کریں گے ۔میں حیران ہو ں اس وقت یہ خواتین جو سلینڈر سے ڈرتی ہیں وہ کیا کریں گی۔ ہمارے ایک مہربان نے خاتون خانہ سے بہ ہزار منت کہا کہ میں سلینڈر لے کر آتا ہوں خیر ہے اس کا گیس کا پائپ چھت سے نیچے لائیں گے۔ اور چھت پر آنا جانا میرے ذمہ میں کھولنے بھی جا¶ں گا اور آہستہ کرنے اور بند کرنے کا سارا کام میرے ذمہ ہوگا۔مگر ان کی گھر والی نے تو صاف انکار کر دیا اور اپنے سسر کا حج پرجدہ ایئر پوٹ سے لایا ہوا 1977ءکا مٹی کے تیل کا چولھا نکال کر لگالیا۔ مگر اتنی نفاست سے او رچولھا اتنا خوبصورت اور چمکتا ہوا کہ یوں لگا جیسے ابھی بازِارسے خرید کر لایا گیا ہے۔ہم تو صاف دھوکہ کھا گئے۔ہم نے پوچھا یہ چولھے کہاں ملتے ہیں 
معلوم ہوا کہ یہ تو پینتالیس سال پرانا چولھا ہے ۔یقین نہ آیا او رہم نے چولھے کو قریب سے جاکر ان کے کچن میںدیکھا اور اس کی موبائل تصویر بھی لی ۔واہ واہ یہ نیلا شعلہ کہ بندہ دیکھتا رہ جائے۔ پھر شاید ان کی نفاست طبع کا اس میں دخل ہو وگرنہ تو چولھا اتنا پرانا ہو تو اس کو زنگ تو کم از کم لگنا چاہئے۔ انہوں نے یہ مزیدار کھانے اسی ایک چولھے پر پکا ئے ۔خود شوہر بھی تو نفیس مزاج کے انسان ہیں ۔جب دو میاں بیوی نفیس طبیعت کے مالک ہوں تو ان کا گھر تو جنت کا نمونہ ہی نظر آئے گا۔ عقیل احمد صدیقی افسری سے ریٹائرڈ ہوئے مگر گھر کے کام سے ریٹائرمنٹ نہ لی ۔ ہر کام میں جُتے ہوتے ہیں پودو ںکو پانی دینا گلی میں چھڑکا¶ کرنا کچن کو توڑ کر اندر سے باہر صحن میں تعمیر کرنا گویا شاہجہان بادشاہ کی طرح اگر تاج محل نہیں بنایا تو گھر کو کچھ اسی طرز پربنانے کو تُلے ہوئے ہیں۔ ان سے نچلا نہیں بیٹھا جاتا ۔ چولھے کے لئے مٹی کاتیل دور سے لے کر آتے ہیں۔اپنے جیون ساتھی کا اتنا خیال ہے کہ مٹی کے تیل کی لیٹر کی بوتل خواہ جتنے کی ہو لا کر گھر کچن تک پہنچاتے ہیں ۔یہ نہیں کہ ہمارے لئے کوئی نئی بات ہے ۔ہم چھوٹے تھے تو اس وقت سوئی گیس کہاں تھی ۔سوئی گیس تو ہمارے سامنے ہماری گلی میں پہلی بار آئی تھی ۔اس سے پہلے تو ہمارے ہاں کمپنیوں کی گیس سلینڈر میں ملتی ۔ایک سلینڈر ختم ہوتا تو نمائندے کواطلاع کر تے وہ آ کر دوسرا دے جاتے او رخالی سلینڈر لے جاتے۔اب بھی گیس کی مختلف کمپنیاں ایسا ہی کر رہی ہیں۔اگر احتیاط کی جائے تو سلینڈر 
کے پھٹنے کی کوئی تُک نہیں بنتی ۔تنوروں میں بہت بڑا گیس سلینڈر تندور کو گیس دے رہاہوتا ہے اور دو بھرے ہوئے ساتھ پڑے ہوتے ہیں۔پھر گیس کی دکان میں گیس سے بھرے پُرے اچھے خاصے بڑے سلینڈر بیس بیس کلو کے ساتھ ساتھ رکھے گئے ہوتے ہیں۔اب تو مٹی کا تیل پلاسٹک کی بوتلوں میں لے آ¶ مگر ہمارے بچپن میں تو شیشے کی بوتلوں میں یہ مٹی کا تیل آتا تھا ۔پچیس پیسے کی بوتل دیتے تھے ۔گیلن میں چار بوتلیں یا چھ بھی آ جاتی تھیں۔اب تو کوئی تین سو کوئی تین سو بیس کوئی دو سو ستر کی بوتل دے رہا ہے۔حاجی صاحب کے بیان کے مطابق یہ ڈر نہیں کہ مٹی کے تیل کا یہ چولھا پھٹ جائے گا ۔مگر ہم نے اس قسم کے چولھوں کے پھٹنے کے واقعات بھی سن رکھے ہیں جن میں گھر کی بہو جل جایا کرتی تھی ۔ہاں اس چولھے میں بتیاں پوری ہونی چاہئیں ۔ایک بتی بھی کم نہ ہو کیونکہ اس کمی سے خطرات جنم لے سکتے ہیں اور پھر اس کا شعلہ خوبصورت نیلاہٹ نہیں دے گا بلکہ برتن کالے کرنے کو سرخ شعلہ دینا شروع کر دے گا۔بہر حال آج کل تو تیار او رریڈی میڈ اور ڈسپوزیبل چیزوں کے استعمال کا زمانہ ہے ۔کون اتنے جھنجھٹ پالے کہ اب اس دور میں مٹی کے تیل کے چولھے استعمال کرے ۔میں تو حاجی صاحب کی نفاستِ طبع پر حیران ہوں کہ ان کو اس چولھے پر پکا ہوا کھانا پسند ہے۔پھر یہ بات اس لئے بھی سچ ہے کہ جب ہم ان کے دستر خوان سے چِِپکے ہوئے ماحضر تناول کر رہے تھے تو لذتِ زباں ہمیں دوسری ڈشوں کی طرف بھی اٹھ اٹھ کر اشارہ کر رہی تھی ۔یہ اب تک نامعلوم ہے اورراوی یہاں بھی خاموش ہے کہ یہ لذت خاتون خانہ کی سلیقہ مندی سے آئی تھی یا مٹی کے تیل کے چولھے سے برآمد ہوئی ۔شہرسے باہر جہاں یہ سہولیات نہیں وہاںتو گھاس پھونس اور لکڑیاں جلا کر کھانے پکتے ہیں۔ ان کا جدا مزا ہوتا ہے ۔ان کھانوں کی لذت میں خواہ چائے ہی کیوں نہ ہو لکڑی کے جل کر کوئلہ ہوجانے کی دھانس بھی بطورِ خوشبو محسوس ہو تی ہے۔