آو سوچتے ہیں

 میں ایک کلینک میں بیٹھا تھا۔ وہاں مجھے ڈرپ لگی ہوئی تھی ۔ڈرپ نے کافی دیر میں ختم ہونا تھا۔اتنے میں فراغت ہی فراغت تھی۔ سوچنے سمجھنے کا بھرپور موقع ملاتھا ۔دل نے کہا آ¶ سوچتے ہیں۔ اس سے اچھاموقع اور کون سا ہوگا۔ سوچنے کے لئے وقت کہاں ملتا ہے۔خود اپنے آپ سے باتیں کرنے کا وقت جو نہیں ملتا ۔مگر کس مسئلہ پر سوچ بچار کی جائے۔یہ بھی تو اپنی جگہ ایک جداگانہ مسئلہ تھا۔کیونکہ مسئلوں کے انبار ذہن میں لگے تھے۔ ایک طومار تھا اب میں سوچ میں تھا کہ ابھی سارا دن کے بعد شام سمے کچھ وقت مل پایا ہے تو چلو کچھ دیر سوچتے ہیں۔مگر کیا سوچیں کس ٹینشن کو پہلے ذہن میں لا کر اس کا حل نکالیں۔ اسی کشمکش میں خیال آیا کہ چھوڑو بس نہیں سوچتے ۔ روز ہمیں کون سا وقت مل پاتا ہے جو ہم اب وقت کی دستیابی کے بعد غور و فکر سے کام لیں۔اب بھی اگر نہیں سوچا تو کیا ہو جائے گا کسی کاکیا بگڑجائے گا ۔بس سوچنا ہوا تو کسی دن اکیلے جا کر کسی پارک میں بیٹھیں گے اور مہینوں کے بہت سے جمع شدہ مسائل پر یک رکنی کمیٹی میں بحث کریں گے ۔ویسے بھی ہمارے مسائل ایسے نہیں جو کسی اور کے ساتھ خواہ وہ دوسرا ہو یا تیسرا ہی کیوں نہ ڈسکس کئے جائیں۔دوسرے تیسرے پر مومن خان مومن کا شعر یاد آیا اور کیا بر موقع یاد آیا مگر یاد بھی آیا تو اس سے مسئلے کا حل تو نہیںنکلے گا بلکہ مسئلے کے زیادہ ہو جانے کا زیادہ احتمال ہے ۔ وہ شعر یہ ہے” تم میرے پاس ہوتے ہو گویا ۔ جب کوئی دوسرا نہیںہوتا“۔اس شعر میں بھی مسئلہ تھا ۔یہ کہ ایک تو ہوا”میں“اور ایک ہوا ”تم “۔ یہ دو ہوئے ۔تو پھر مومن کو کہنا چاہئے تھا کہ ”جب کوئی تیسرا نہیںہوتا“۔ پھر مومن یہ بات آسانی سے کہہ سکتا تھا۔مگر جانے اس نے کیوں نہیں کہا اس بارے سوچنا بیکار ہوگا۔ مگر ادب و شعر کے پنڈتوںسے سنا ہے کہ شعر کا سارا لطف ایک لفظ ” دوسرا“میں ہے۔ہوگا ہم نے تو نہ لیکچراری کا ٹیسٹ دینا ہے او رنہ ہی اردو انٹرویو کی تیاری کرنی ہے۔ہم تو ادبی بحث ومباحثے کے دور سے بہت دُور نکل آئے ہیں۔دوسرا تیسرا ہو ہمارا کیا ہے۔ہمیں تو چوتھا بھی قبول ہے۔کیونکہ جتنے افراد زیادہ ہو ں گے بحث و تمحیص کا اتنا ہی لطف بڑھنے کا امکان ہے۔میرا مسئلہ ایک یہ بھی ہے کہ میں سٹارٹ تو لے لیتا ہوں مگر بات کہاں سے کہاں نکل جاتی ہے او رہمیں اس پر کنٹرول ہی نہیںرہتا ۔بلکہ تحریر کے اختتام تک عنوان کے تحت بات ہو ہی نہیںپاتی کہ اتنے میںمقررہ ٹائم ختم ہو جاتا ہے اور بات وہی ادھوری کی ادھوری رہ جاتی ہے۔اس سے میرے بعض مہربان بہت شاکی ہیں کہ شروع کرتا مگر آخیر سے اور اختتام پر جب مضمون کی دو لائنیں رہتی ہوں کالم کا آغاز کردیتا ہے۔جس کو ہم اپنے خیال کے زور پرخود ہی مکمل کرتے ہیں۔خیراس معاملے میں نہ تو ہمیں قدرت حاصل ہے کہ انسان ناچیز ہے ادھورا ہے اور نہ ہی ہمارے ریڈر کو ہم پر گرفت ہوگی بلکہ وہ تو ہمارے ان کرتوتوں پر دل میں اونٹھتے ہوں گے بل کھاتے ہوں گے مگر کالم چونکہ شائع ہو چکا ہوتاہے ان کا بس نہیں چلتا۔ہا ںاس قصور پر وہ شادی بیاہ کی کسی گیدرنگ میں ہماری اچھی خاصی دھلائی کر دیتے ہیں۔ ان کی زبان کے کوڑے دل کے جسم پر اچھے خاصے نشان چھوڑ جاتے ہیں۔وہ میں کہہ رہا تھا کہ کلینک میں جب یونہی چھتوں اور دیواروں پر نگاہ دوڑتی رہی او رچھت کی لکڑیاں گنتی رہی تو اس وقت محلے کے اس معالج کی میز پر کسی خشک دودھ کی کمپنی کا اشتہاری کلینڈر دیکھا۔ جس پر دو گزری عمر اشخاص کی تصویر تھی ۔ان میں سے ایک بابا دوسرے کو کہہ رہاتھاارے پی لو یہ دودھ ۔بچپن کے دن واپس لوٹ آئیںگے۔ مجھے بہت حیرت ہوئی ۔ میں تو اشتہار بازی کی یہ چال سمجھ گیا مگر جی چاہا کہ ڈرپ کی سوئی کو کھینچ کر اتارو ںاور بھلے خون نکلے یا ڈرپ کے سمیت دوڑ کر اس شفا خانے سے باہر نکلوں اور دودھ کی کمپنی کے دفتر پہنچ کر وہ جنسِ نایاب حاصل کروں۔اگر اس کمپنی کا ہیڈ آفس ملک کے کس بڑے شہر میں ہو تو مجھے یہ جا کر وہاں سے حاصل کرنا چاہئے ۔تاکہ میں یہ نعمت نوشِ جاں کروں او رپھر سے بچپن کی بھول بھلیوں میں کھو جاﺅں۔۔۔