پاکستان کے سکواش کے اُبھرتے ہوئے نوجوان سپوت حمزہ خان نے گزشتہ اتوار کوآسٹریلیا کے شہرملبورن میں مصر کے محمد زکریا کو3-1سے شکست دے کر37 سال بعدورلڈ جونیئر سکواش چیمپئن شپ کا ٹائٹل پاکستان کے نام کر دیا ہے یاد رہے کہ آخری بار کسی پاکستانی کھلاڑی عامر اطلس نے2008کے فائنل میں جگہ بنائی تھی جب کہ پاکستان کی طرف سے یہ ٹائٹل آخری بار جان شیر خان نے 1986 میں جیتاتھا۔اپنی جیت پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے، حمزہ خان جنہوں نے 2020 میں برٹش جونیئر اوپن سکواش چیمپئن شپ میں انڈر 15 کا ٹائٹل جیتا تھا نے اپنے کوچ، اپنے منیجرز اور اپنے والدین کا تعاون کرنے پر شکریہ ادا کیاہے۔صدر عارف علوی اوروزیراعظم شہباز شریف نے 37 سال بعدعالمی ٹائٹل پاکستان واپس لانے پر حمزہ ک ومبارک باد تو دی ہے لیکن تادم تحریر حکومت کی جانب سے نہ تو ان کےلئے مالی تعان کا کوئی اعلان ہو اہے اور نہ ہی صدر یا وزیر اعظم نے اس قابل فخر سپوت کواس کے مستقبل کے عزائم کی تکمیل کے حوالے سے کوئی یقین دہانی کرائی ہے حمزہ خان کا تعلق دنیائے سکواش میں مشہور پشاورکے نواحی علاقے نودیہہ پایان(نوے کلے) سے ہے ۔وہ سکواش کے ایک مضبوط شجرہ نسب جس
سے روشن خان، ہاشم خان، اعظم خان، محب اللہ، قمر زمان، جان شیر خان اور جہانگیر خان کا تعلق ہے کے خاندان کے چشم وچراغ ہےں۔سکواش کے سابق عالمی نمبر 14 شاہد زمان ان کے ماموں ہیں اور لیجنڈ قمر زمان ان کے قریبی رشتہ دار ہیں۔شاہد زمان کی مرحومہ بیوی حمزہ خان کے والد نیاز اللہ کی بہن تھیں۔یہ بات دلچسپی کی باعث ہے کہ حمزہ خان کے والد نیاز اللہ خود بھی سپورٹس مین رہتے ہوئے انٹر کالج اور انٹر یونیورسٹی کھیلوں میں اسلامیہ کالج اور پشاور یونیورسٹی کی نمائندگی کرچکے ہیں۔ میڈیا میں شائع اور نشرہونے والی خبروں کے مطابق نیاز اللہ بطور والد حمزہ خان کوپریکٹس کے لئے خودہاشم خان سکواش کمپلیکس لے جاتے تھے جہاں وہ خودان کی کوچنگ کرتے تھے ۔حمزہ خان بعد میں پی اے ایف اکیڈمی پشاور کے انڈر 11 ٹرائلز میں شامل ہوا جہاں اس نے باقی تمام سات لڑکوں کو شکست دی جس کے نتیجے میں انہیںپاکستان انڈر 11 چیمپئن شپ میں نہ صرف حصہ لینے کا موقع ملا بلکہ وہ یہ چیمپئین شپ جیتنے میں بھی کامیاب ہوئے۔اس چیمپئین شپ کوجیتنے کے بعد انہوں نے سکواش کو بطور پیشہ اپنانے کا فیصلہ کیا جس سے سکواش اس نوجوان کی زندگی کا لازمی حصہ بن گیاہے۔ حمزہ خان نے اپنی کامیابی کے سفر کے بارے میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہاہے کہ وہ اس مقام تک پہنچنے کے لئے روزانہ بلا ناغہ صبح کے وقت ایک انسٹرکٹر کے تحت شدید جسمانی تربیت سے گزرتے تھے۔ پھر سکول کے بعد وہ دوبارہ اکیڈمی جاتے تھے اور دوپہر 2 بجے سے شام 6 بجے تک یہ تمام ٹریننگ اور پریکٹس کرتے تھے۔بقول ان کے جب انہوںنے 2016 میں چیف آف ایئر سٹاف انڈر 11 ٹورنامنٹ جیتا تھا توانہیں پاکستان سکواش فیڈریشن نے اسلام آباد میں تربیت کے لئے بلایا تھا۔انٹرویو کے دوران حمزہ نے کہا کہ ان کا حتمی مقصد بڑے ٹائٹل جیتنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ میرا حتمی مقصد برٹش اوپن اور ورلڈ
اوپن کو پاکستان میں واپس لانا ہے۔حمزہ نے عالمی کپ کا فائنل اقبال کے شاہین کے مصداق جھپٹ کر پلٹناپلٹ کر جھپٹنا کے فلسفے کے مطابق پہلا سیٹ 12-10 سے ہارنے کے باوجود حمزہ مقابلے میں نہ صرف ڈٹے رہے بلکہ 71 منٹ لگاتار فرنٹ فٹ پر جارحانہ انداز میں کھیلتے ہوئے زکریا کو زیر کر کے3-1سے تین دہائیوں بعد عالمی ٹائٹل بھی پاکستان کے نام کرنے میں کامیاب ہوئے۔کھیلوں کے مبصرین کاکہنا ہے کہ حمزہ کا ورلڈ جونیئر ٹائٹل تک کا سفر ایک بہت بڑا چیلنج تھا کیونکہ ابتدا ءمیں اس کے پاس بہت کم مالی مدد تھی اور نہ ہی اس کی پشت پناہی کرنے والے سپانسر تھے لیکن اسے اپنی صلاحیتوں پر بہت بھروسہ تھا اور اس کے والد نے اسے یقین دلایا تھاکہ اس کی محنت کی وجہ سے اس کی صلاحیتوں کو اُجاگر کیا جائے گا۔حمزہ خان نے اپنی کامیابی کے بعد سجدہ شکر کی ادائیگی کے بعد میڈیا سے بات چیت میں کہا ہے کہ میں پاکستان سکواش فیڈریشن اور خاص طور پر پاک فوج کا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں، انہوں نے مجھے بہت سپورٹ کیا، اور میں ان کا تہہ دل سے شکر گزار ہوں، اور انشاءاللہ اگر مجھے مستقبل میں بھی اسی طرح کا تعاون ملتا رہا تو میں ہر جگہ پاکستان کا سر فخر سے بلند کروں گا۔