یہ خبر اچھی ہے کہ چین نے پاکستان کے لئے 2ارب دس کروڑ ڈالرزقرض دو سال کیلے موخر کر دیا ہے پر سوچنے کا مقام یہ ہے کہ کب تک ہمارے دوست ممالک اس قسم کی عنایات سے ہمیں نوازتے رہیں گے کیا اب وہ وقت نہیں آ گیا کہ ہمارے مالی امور کے ماہرین کوئی ایسا راستہ نکالیں ،کوئی ایسا مالی سسٹم مرتب کریں کہ وطن عزیز بیرونی قرضوں کے بوجھ سے بچ سکے اور جتنی چادر ہو ہم اتنے ہی اپنے پاﺅں پھیلائیں۔ اس ضمن میں وزیراعظم کا یہ بیان بڑا معنی خیز ہے کہ شہنشاہی اخراجات کم کر کے کشکول توڑنا ہو گا۔ انہوں نے اگلے روز ڈیرہ اسماعیل خان میں مختلف ترقیاتی منصوبوں کا افتتاح کرتے درست فرمایا کہ ماضی میں پن بجلی پر توجہ نہ دینا فاش غلطی تھی اور یہ کہ واپڈا میں اربوں کی کرپشن ہوتی ہے ۔ویسے دیکھا جائے
تو پانی سے بجلی کی پیدوار کے معاملے میں ہر حکومت نے کوتاہی کی ہے اگر فیلڈ مارشل ایوب خان کی طرح ان کے بعد آنے والے حکمرانوں نے بھی ملک میں ڈیم بنانے کی طرف مناسب توجہ دی ہوتی تو آج یہ ملک توانائی کے شعبے میں مشکلات کا شکار نہ ہوتا ۔ارکان سینٹ کا یہ مطالبہ بجا ہے کہ ایف بی آرکے بڑے بڑے افسروں کے اثاثوں کی تفصیلات عوام کے سامنے پیش کی جائیں قانون کی نظر میں سب برابر ہیں ۔سینٹ میں اسلحہ کے لائسنس کے بارے میں جو قائمہ کمیٹی موجود ہے اس کا اولین فرض یہ ہونا چاہئے کہ وہ فورا ً سے پیشتر قانونی سازی کروا کر ملک میں ممنوعہ بور کے آٹو میٹک اسلحہ کے پرائیوٹ ہاتھوں میں استعمال پر پابندی نافذ کرائے۔ ممنوعہ بور کے اسلحے کی عام شہریوں کے پاس موجودگی کی وجہ سے ملک میں پرتشدد واقعات کی شرح میں خوفناک حد تک اضافہ دیکھنے میں آیاہے کسی کو بھی ممنوعہ بور کے اسلحہ کے لائسنس جاری نہ کئے جائیں اور جو جاری کئے گئے ہیں انہیں فوری طور پر کینسل کیا جائے۔ ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کو البتہ یہ اختیار دیا جائے کہ وہ
ایک مخصوص ماہانہ کوٹہ کے اندر رہ کر ان افراد کو مناسب تصدیق کے بعد اپنی جان کی حفاظت کے واسطے غیر ممنوعہ بور کے پستول کے لائسنس جاری کرے کہ جن کو اپنی جان کی حفاظت کیلے اسلحہ درکار ہے ۔بھارت کی ریاست منی پور میں کئی عرصے سے جاری فسادات کو روکنے سے ناکامی پر بھارتی لوک سبھا میں اپوزیشن کی 26 جماعتوں کے اتحاد نے مودی سرکار کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک لانے کا فیصلہ کیا ہے۔ مقام افسوس ہے کہ عالمی طاقتیں کہ جو اس پوزیشن میںہیں کہ کسی بھی ملک سے اپنی بات منوا سکیں ان کاضمیر بھارت کی موجودہ حکومت کی اقلیت کش پالیسی پر سو رہا ہے اور وہ بھارت میں کھلے عام اقلیتوں کے قتل عام پر بھارت کی حکومت پر کسی قسم کا پریشر نہیں ڈال رہیں۔ اسی طرح وہ فلسطینیوں پراسرائلی بر بریت پر بھی خاموش ہیں ۔اب عالمی طاقتوں کو اپنی پالیسی پر نظر ثانی کرنے کی ضرورت ہے۔