تو آنکھیں بھیگ جاتی ہیں

وہی آنکھیں نم ہو سکتی ہیں جو حساس ہوں ۔جن میں قرارِ واقعی دیکھنے کی صلاحیت ہو ۔ یونہی دیکھنا او ردیکھتے رہنا گویا سب کچھ دیکھ کر آنکھیں بند کر رکھی ہوں وہ آنکھیں یہاں مراد نہیں ۔اکبر الہ آبادی کا شعر ” آنکھیں تو بے شمار دیکھیں لیکن۔ بخدا کم تھیں جن کو بینا پایا“۔ وہ آنکھیں جو حقیقت پر نگاہ رکھتی ہوں وہ اول تو ہیں نہیں اور اگر ہیں تو بہت کم ہیں بلکہ کم کم ہیں۔شہر میں گھوم پھر کر دیکھیں ۔ہم صبح سمے شہر گئے ،بازار سنسان تھے ، موٹر سائیکلسٹ نہ ہونے کے برابر تھے ۔ مگر جو یہ تھے ان میں بیشتر برق رفتاری سے جاتے تھے ۔میں حیران تھا کہ اب تو کسی کو کیا کہیں پہنچنے کی جلدی ہوگی اور کوئی کیا رش میں گِھر گیا ہوگا ۔اب ان کو تیز رفتاری کی کیا ضرورت ہے۔ ایسے میں ایک گدھا گاڑی آتی ہوئی دکھائی دی جس پر عمارتی سریہ رکھ کر کہیں لے جایا جا رہاتھا۔ بیس فٹ سریہ کی سلاخیں جھول کھا کر گدھاگاڑی کے جانور کے آگے اوپر کو اٹھی ہوئی تھی جو ہو سکتا ہے کہ کسی کو نظر نہ آئیں ۔سو اس کے ساتھ اگر کسی کی ٹکر ہو جائے تو سلاخیں جگر کے آر پار بھی ہو سکتی ہیں۔وہی سریہ پیچھے تولہ برابر کرنے کو سڑک کے تارکول کو کرید رہا تھا ۔اس قسم کے سین دیکھو تو آنکھیں بھیگ جاتی ہیں۔ سڑک پر لکیریں اور خراشیں ڈالتی ہوئی یہ گدھا گاڑی جانے کہاں کو رواں دواں تھی اور پھر یہ بات محض گدھا گاڑی تک محدود تو نہیں ،پک اپ گاڑیوں میں بھی لد ا ہوا سریا سڑکوں کو ادھیڑ رہا ہوتا ہے۔ ایک اور منظر ہے بڑے بازار کے اندر کوڑے کے ڈرم پڑے تھے اور گلیوں میں عملہ صفائی میں مصروف تھا۔ مگر یہ لوگ بھی اب کتنی صفائی کریں گے ۔ڈرم خالی تھے مگر کوڑا کرکٹ ڈرم کے باہر زمین پر گرایا گیا تھا ۔ ہم کہنے کوتو شہری ہیں مگر ایک شہری میں شہریت نہ ہو سوک سینس نہ ہو کہ شہر میں کیسے رہا جاتا ہے یہ سمجھ بوجھ نہ ہو توپھر شہر کی حالت ایسی ہی ہوتی ہے جو ہمارے شہر کی ہے ۔ آنکھیں تو ان گنت تھیں جو سب کچھ دیکھ رہی تھیں پھرروزانہ کے حساب سے بے حساب دیکھتی ہیں۔ مگر ان مناظر سے کسی کو دل چسپی نہ ہو تو ان خشک آنکھوں کا بھی کیا جن آنکھوں میں پانی نہ ہو وہ آنکھیں بھی کیا جن کی اپنی کہانی نہ ہو ۔جب کہانی ہوگی تو ان آنکھوں کو یہاں وہاں بے حساب کہانیاں کاغذ کی سطح سے اٹھ کر چلتی پھرتی ہوئی نظر آئیں گی ۔بڑے بازار سے ملحق گلیوں میں سے گزر ہوا چونکہ نگاہیں وہ رکھی ہیں کہ دیکھتی ہوں بولتی چالتی آنکھیں ہو ں جو بہ موقع بھیگ جانا بھی جانتی ہوں۔ یہی وہ گلی کوچے تھے وسیع و عریض ہوا کرتے تھے جو ہمارے کھیل کود کے بڑے میدان تھے مگر اب جو دیکھو تو آنکھیں بھیگ جاتی ہیں۔حالانکہ صبح کے اس وقت شہر خالی کوچہ خالی سب کچھ خالی تھا مگر تجاوزات کے ہاتھوں ان گلی گلیاروں کی تنگی دیکھ کر اب تو آنکھیں بھیگ جاتی ہیں۔کیا یہ وہی گلیاں ہیں جو چھا¶ں چھڑکتی تھیںاب تو یہاں پر سے جیسے سائے نوچ کرزمین پر پٹخ دیئے گئے ہوں۔یہی گلیاں اب تنگ و تاریک لگ رہی تھیں۔پھر ممکن ہے وہ ہمارا بچپن تھا جب ہم خود جسم کے لحاظ سے چھوٹے تھے تو ہمیں شاید اس وجہ سے یہ گلیاں بڑی لگتی تھیں ۔پھر اب ہم خود جسمانی ساخت میں بڑے ہوگئے تھے جس کی وجہ سے ہمیں یہ گلیا ںیہ چوبارے سمٹے اور تنگ لگتے تھے ۔ایسا سین دیکھو تو آنکھیں بھیگ جاتی ہیں۔ایک رکشے کے پیچھے دیکھا کہ ٹریفک پولیس والوں نے لکھا تھا ” زیبرا کراسنگ سے سڑک عبور کریں“ ۔ اس قسم کی عبارت دیکھ کر آنکھیں بھیگ جاتی ہیں۔کیونکہ شہر کے اس چڑیا گھر میں کہیں زیبرا نظر نہیں آتا کہ چھوٹے تو چھوڑ بڑوں کو بھی پتا لگے کہ زیبراہوتا کیا ہے یہ کون سا جانور ہے۔پھر کہیں جا کر اگر آپ نے سڑک پرزیبرا کراسنگ بنا رکھا ہو تو بندہ اس پر سے گزرے ۔ایسا منظر دیکھ کرکہ شہر میں جس منظر کے بیچ زیبرا کراسنگ سرے سے موجود ہی نہ ہو اور وہ منظر دیکھیں تو آنکھیں بھیگ جاتی ہیں۔