معاشی ترقی : افرادی ترقی

پاکستان اور امریکہ دوطرفہ خوشگوار تعلقات بحال کرنے کی راہ پر گامزن ہیں۔ گزشتہ کئی مہینوں میں ہائی پروفائل وفود کے تبادلے ہو رہے ہیں اور پاکستان کو امریکہ بھارت تعلقات کے حوالے سے جو خدشات و تحفظات لاحق ہیں اُن پریشانیوں کو بڑی حد تک کم کرنے کی کوشش ہو رہی ہے لیکن امریکہ کے پاس پاکستان کو دینے کے لئے صرف دلاسے ہیں! حال ہی میں امریکی وزیر خارجہ انتھونی بلنکن اور وزیر خارجہ بلاول زرداری کے درمیان حالیہ ٹیلی فونک بات چیت ہوئی جس نے پاک امریکہ تعلقات میں بہتری کی اُمید پیدا کی ہے کیونکہ واشنگٹن نے پاکستان کی معاشی بحالی میں اصلاحات کے لئے اپنی حمایت کی یقین دہانی کرائی ہے۔ یہ وعدہ اپنی جگہ اہم ہے کیونکہ امریکہ نے باضابطہ طور پر ’آئی ایم ایف‘ کے ساتھ اختلافات دور کرنے میں اہم کردار ادا کیا‘ جس کی وجہ سے نے تین ارب ڈالر کا قرض ملنے میں آسانی ہوئی لیکن اِس قرض کے ساتھ جڑے اسٹینڈ بائی معاہدے میں درج شرائط کسی بھی طرح معاشی و افرادی ترقی کے ہم آہنگ نہیں۔ آئی ایم ایف کی تجدید شدہ مفاہمت خوش آئند قدم قرار دیا جا رہا ہے اور اِس سے
 اُمید ہے پاکستان کو معاشی تنزلی کی دلدل سے نکالنے اور براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری اور میگا بزنس روابط کو فروغ دینے میں مدد ملے گی۔ 
جنوب مغربی ایشیا سے انخلا¿ کے بعد کے مرحلے میں‘ امریکہ اور پاکستان اپنے اپنے مفادات کا تحفظ کر رہا ہے۔ افغانستان میں قیام امن کو یقینی بنانے اور انسداد دہشت گردی کی کوششوں میں تعاون کا عزم بھی دونوں ممالک کے درمیان اتفاق رائے کی صورت ’نیک شگون‘ ہے۔ اس کا براہ راست تعلق خطے کی جغرافیائی اقتصادیات سے بھی ہے کیونکہ جنگ زدہ افغانستان میں مستقل بنیادوں پر قیام امن ضروری ہے اور اِس مقصد (ہدف) کے حصول کے لئے واشنگٹن اور اسلام آباد دونوں اپنی اپنی حکمت عملیوں کو ایک دوسرے سے قریب لانے اور اِنہیں عملی جامہ پہنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ مزید برآں بلنکن اور بلاول بات چیت میں ’پیداواری‘ جمہوری اور خوشحال شراکت داری‘ کے لئے پاکستان کی حمایت کی یقین دہانی کرائی گئی ہے جو درحقیقت علاقائی اور عالمی مسائل کو سمجھنے کی دو طرفہ تفہیم ہے اور اِس سے وسیع تر تعاون کی نئی راہیں کھل گئی ہیں۔ بلنکن کا یہ بیان کہ پاکستان کی اقتصادی ترقی امریکہ کی اوّلین ترجیحات میں سے ایک ہے‘ لفظی طور پر حوصلہ افزا ہے اور اِس سے دونوں ممالک کے درمیان اعتماد کو فروغ دے کر تعاون کی سطح کو وسیع کرنا چاہئے۔ امریکہ پاکستان کی مدد انسانی سرمائے میں سرمایہ کاری کر کے بھی کر سکتا ہے جیسا کہ اُس نے بھارت کے ساتھ معاہدات کئے ہیں۔ پاکستان میں اہلیت اور اداروں (ٹیلنٹ اور انٹرپرائز) کی کوئی کمی نہیں اور یہی وہ مرحلہ¿ فکر ہے جہاں امریکی کاروباری ادارے مشترکہ منافع بخش منصوبے شروع کر سکتے ہیں۔ وقت ہے کہ پاکستان میں
 چھوٹے پیمانے پر کاروباری سرگرمیوں (اسٹارٹ اپس) کے ساتھ تعلیمی و تحقیقی شعبوں میں سرمایہ کاری کی جائے۔ بنیادی بات یہ ہے کہ معاشی ترقی انسانی ترقی کے بغیر ادھوری ہے ایسے میں اگر افرادی قوت کی تعلیم و تحقیق اور ہنرمندی میں طویل المدتی سرمایہ کاری کی جائے تو اِس سے معاشی مسائل حل ہو سکتے ہیں۔ امریکہ پاکستان کی برآمدات میں اضافے اور افرادی قوت کو اپنے ہاں روزگار فراہم کر کے زیادہ بہتر کردار ادا کر سکتا ہے اور پاک امریکہ تعلقات کے اِس نظرانداز پہلو پر زیادہ توجہ (غوروفکر) کی ضرورت ہے۔ایسے حالات میں کہ جب دنیا میں معاشی کساد بازاری اور مہنگائی کا دور دورہ ہے ممالک کے درمیان تعلقات میں معاشی فوائد کا عنصر یقینا غالب رہے گا۔ پاکستان اور امریکہ دیرینہ معاشی پارٹنر ہیں اسلئے ان حالات میں امریکہ اور پاکستان کے درمیان قریبی تعلقات دونوں ممالک کے مفاد میں ہیں۔ جس سے اس وقت اگر فائدہ نہ اٹھایا گیا تو پھر ابھی یا کبھی نہیں والا معاملہ ہوگا۔ چین اورا مریکہ کے درمیان معاشی مذاکرات کی بھی خبریں آرہی ہیں جو پاکستان کیلئے بھی اچھی خبر ہے ۔