اس شہر کے باشندوں کو تو جیسے بارش نے ترسا دیا ہے دوسرے شہروں کے آسمان تو اپنے شہر واسیوں پرمہربان ہیں بلکہ اکثر تو یوں نامہربان ہیں کہ جل تھل مچا دیا کہ لوگوں کے گھروں کی چھتیں ہی اڑا دی ہیں۔اگر نہیں برستا تو خیر مگر موسم کی جو یہ خوشگواری ہے وہ ضائع نہ ہونے پائے۔ہمارے لئے تو اتنا بھی کافی ہے کہ سرِ آسمان چمکتا ہوا غیض وغضب ڈھاتا سورج یونہی بادلوں کے پیچے روپوش رہے۔سو ہمارا بھی وقت اچھا گزرے گا۔مگر ابرِ باراں اگر ابرِ رحمت بن کر تھوڑی دیر کو سہی برس جائے تو کتنا اچھا ہو ۔یہاں مسئلہ یہ ہے کہ بارش کی تمنا کون کرے ۔کیونکہ دور پار اور قریب بارش کے بادلوں کی وہ گھن گرج ہے کہ لگتا ہے اب بادلوں کا طبلِ جنگ بجنے لگا ہے مگر اُس رات بھی بادلوں کے نقارے بجتے رہے لیکن یہاں ایک بوند نہ گری ۔لوگ ایک دوسرے سے پوچھتے پائے گئے کہ رات کو بارش ہوئی تھی؟ مگر بادلوں کے نقاروں پہ خوب چوٹ پڑی اور باراں نہ ہوا۔بقولِ حالی ” وصل کے ہوہو کے ساماں رہ گئے ۔مینہ نہ برسا اور گھٹا چھائی بہت“۔دو ایک روز قبل صبح دم بوندا باندی ہوئی تھی مگر بادلوں نے آدھ گھنٹہ اسی چھڑکا¶ پر اکتفا کیا اور سچی بات ہے کہ ہمارا تو اس سے بھی کام چل گیا وہ دن اچھا گزرا ۔اپر دیر براول بانڈی میں اپنے مہربان ذاکر اللہ نادان ہیں ۔ان سے فون پر بات ہوئی تو ہم نے موسم کے بارے میں پوچھا انہو ںنے بتلایا چار روز سے بارش جاری ہے‘ آئیں ناچکر لگائیں ۔مگر پانچ گھنٹے کی مسافت بھی راہ کی ایک رکاوٹ ہے؛مانا کہ وہ مہربان ہیں مگر یہاں جو نکل آنے کی ہمت نہیں ‘سفرکی خجالتیں اور تھکاوٹیں بھی آڑے آتی ہیں۔بٹ خیلہ اور ملاکنڈ میں یارِ مہربان ہیں وٹس ایپ پر بارشوں کی وڈیو بھیجتے ہیں جن کو دیکھ کر ہم صرف خواہش ہی کر سکتے ہیں کہ کاش ہمارے ہاں بھی ایسا ہو۔بارش کا کرنا کسی کے اختیار میں کہا ںہے ویسے بارش ہو تو امن کی آشا سے ہو وہ تباہی نہ مچا دے جو ہمسایہ ملک میں مچی ہوئی ہے ۔جو ہمارے ہاں دو ایک سال پہلے تباہی کی داستان چھوڑ گئی وہی بارش اب وہاں ایک نئی داستان رقم کر رہی ہے‘پشاور کے بادل جا کر دوسرے شہروں میں برس جاتے ہیںاور دوسرے شہروں کے بادل اپنے اپنے پانی وہاں سے زیادہ دور شہروں میں جا کر گرا آتے ہیں۔اب موڈ موڈ کی بات بھی تو ہے بہت کم ہوں گے جن کو موسم کی خوشگواری پسند نہ ہو ۔ورنہ تو ہر جا ہر کس و ناکس کو بارش کا ماحول پسند آتا ہے مگر یہ موسلا دھار بارشیں تو الٹا شہری نظام کو فالج زدہ کر دیتی ہےں‘روز موبائل پر موسمیات والوں کی جانب سے ایس ایم ایس داغ دیتے ہیںکہ وسیع پیمانے پر بارش کا امکان ہے مگر قلیل پیمانے پربھی بارش نہیںہوپا رہی۔ مگر قدرت کی اس میںمصلحت کارفرماہوگی بندہ کو ا س میں کیا دخل کہ وہ بارش کروا سکے ۔دوسرے ملک میں مصنوعی بارش کا تجربہ کیا گیا مگرشاید اس پر زیادہ خرچہ اٹھتا تھا یا پھر کوئی اور مسئلہ ہوگاکہ وہ تجربہ ناکام ہوا ۔وگرنہ تین چار سال پہلے ہونے والی یہ مصنوعی بارش اب ہر جگہ برسائی جا رہی ہوتی۔قدرت کے قربان جا¶ں کیا عمدہ نظام ہے پندرہ دنوں سے موسمیاتی پیش گوئی تسلسل سے ناکام ثابت ہو رہی ہے۔روز ہم صبح ایس ایم ایس دیکھ کر گھر میں ناشتے کے وقت خوشخبری سنادیتے ہیں کہ آج بارش ہوگی اور وسیع پیمانے پرگرج چمک کے ساتھ ہوگی مگر جب رات تک نہیںہوپاتی تو الٹا آنتیں گلے پڑتی ہیں ۔گھر والے ہمیں کوسنے دیتے ہیںکہاں گئی تمہاری پیشن گوئی ۔ایک وزیر اعظم کے دور میں مجھے یاد ہے اسی طرح بارش کی پیش گوئیاں غلط ثابت ہورہی تھیں۔اس پرانہوں نے متعلقہ محکمہ کے افسران کو بلا کر ان کے کان کھینچے کہ یہ کیا معاملہ ہے۔اس کے بعد پیش گوئیوں میں نمایاں بہتری آئی ۔مقصد یہ ہوا کہ اب بھی ان کو بلا کر ان کی جھاڑجھنکار کرنا چاہئے کہ یہ کیا ہورہاہے ۔کہتے ہیں صبح بارش ہوگی اور شام کو ہوگی اب ہوگی پھر ہوگی آج ہوگی اور کل ہوگی مگر ہو نہیں پاتی۔خیر اس میں ان کا کیا دوش کیونکہ وہ انسان ہیں بھلا قدرت کےساتھ کون سر جوڑ کر راز معلوم کرسکتا ہے ۔ویسے یہ موسمی پیش گوئیا ںغلط ثابت ہورہی ہیںتو روشنی پڑتی ہے کہ اوپرایک طاقت ہے جس کے ہاتھ میں اپنا الگ ایک نظام ہے جو جیسا چاہتی ہے ویسا ہوتا ہے۔