تعلیم: سطحی تفہیم

خیبر پختونخوا میں تعلیم کی حالت انتہائی خراب ہے۔ اِس حوالے سے ایک حکومتی ادارے کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ’پوسٹ گریجویٹ ڈگری‘ رکھنے والے امیدواروں کی اکثریت اہلیت کے امتحان (جاب اسکریننگ ٹیسٹ) کے دوران بنیادی سوالات کا جواب دینے سے قاصر پائی جاتی ہے‘ جس سے ہمارے ہاں تعلیمی نظام کے فرسودہ ہونے اور اِس میں پائی جانے والی خامیوں کی نشاندہی ہوتی ہے۔ پوسٹ گریجویٹ کی سطح پر اگر معیار تعلیم خراب ہے اور دیگر درجات پر معیار تعلیم بھی تسلی بخش قرار نہیں دیا جا سکتا۔ اِس لئے مسئلہ صرف کسی ایک امتحان کا نہیں جس کے معیار پر امیدواروں کی اکثریت پورا نہیں اتر رہی بلکہ مسئلہ تعلیم و تحقیق کے شعبے میں طلبہ کی عدم دلچسپی ہے کہ اُنہوں نے خود کو نصابی کتب اور گنتی کے اسباق ازبر کر لینے کی حد تک عمل کو تعلیم سمجھ لیا ہے۔ تعلیم کی اِس سطحی تفہیم کے پریشان کن نتائج سامنے آ رہے ہیں جو منفی رجحان کی عکاسی ہے۔ تعلیم کے لحاظ سے اقوام کی مستقبل میں حصہ داری کا تعین ہوتا ہے۔ عصر حاضر کی ’حقیقی دنیا‘ کے جملہ چیلنجوں سے نمٹنے کے لئے صرف تعلیم ہی وہ صلاحیت ہے جس کے ذریعے ہر رکاوٹ دور کی جا سکتی ہے لیکن اگر ہمارے طلبہ ریاضی‘ اعداد و شمار اور زبانوں جیسے اہم مضامین میں مہارت نہیں رکھیں گے تو اِس سے مستقبل کی ضروریات اپنے وسائل سے پوری نہیں ہوں گی۔ ایک ایسے دور میں جہاں تعلیم میں دلچسپی اور مہارت سماجی ترقی کے لئے ضروری (لازم) قرار دی جاتی ہیں‘ پاکستان خطے کے ممالک سے مختلف شعبوں میں پیچھے ہے اور اِس کمی بیشی کو اعتدال پر لانے کے لئے ضروری ہے کہ تعلیم پر توجہ دی جائے۔ مزید برآں سرکاری ملازمت کے لئے تعلیم اور اہلیت جانچنے کا جو کم سے کم معیار مقرر ہے اُس پر نظرثانی ہونی چاہئے کیونکہ علم اور خواندگی کے درمیان فرق ہے اور اِس فرق کو سمجھنے اور اِس پر روشنی ڈالنے کی ضرورت ہے۔ فیصلہ سازوں کو اِس امکان کا جائزہ لینا چاہئے کہ اگر تعلیم سے خاطرخواہ نتائج حاصل نہیں ہو رہے تو مختلف سطحوں پر تربیتی پروگراموں کا انعقاد ہونا چاہئے۔ اگر سرکاری ملازمت حاصل کرنے والے تعلیمی لحاظ سے کمزور ہوں گے تو اُن کی یہ نااہلی بعدازاں ’انتظامی کام کاج میں رکاوٹ کا باعث بن سکتی ہے اور پاکستان جو تعلیم و تحقیق کے لحاظ سے خطے کے ممالک سے پہلے ہی پیچھے ہے عالمی ترقی کی دوڑ میں بہت پیچھے رہ جائے گا۔ اِس حقیقت کو سمجھنا چاہئے کہ ناقص تعلیمی نظام کے نتائج صرف تعلیمی اداروں یا انفرادی حیثیت میں طلبہ تک محدود نہیں ہیں بلکہ یہ مجموعی طور پر معاشرے کی ترقی پر اثرانداز ہو رہے ہیں۔ خاطرخواہ تعلیم یافتہ نہ ہونے کی صورت میں آبادی باخبر فیصلے نہیں کر سکتی اور وہ شہری زندگی میں فعال طور پر حصہ لینے کے لئے جدوجہد کرنے کے بھی قابل نہیں ہوتی۔ اس بحران سے نمٹنے کے لئے فوری اور جامع تعلیمی اصلاحات کی ضرورت ہے۔ عملی صلاحیتوں‘ شخصیت کی نشوونما اور قائدانہ صلاحیتوں کو ترجیح دینے کے لئے نصاب میں تبدیلی کی جانی چاہئے۔ اساتذہ کی اہلیت بھی یکساں ضروری ہے جس کا حصول یقینی بنانے کے لئے اساتذہ کی تشخیص کے طریقہ کار پر نظرثانی ہونی چاہئے اور ہائر ایجوکیشن کمیشن (ایچ ای سی) اور قومی اداروں کے درمیان قریبی تعاون قائم ہونا چاہئے جو بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ تدریسی معیارات کے تعین کے لئے ضروری سمجھا جاتا ہے۔ پاکستان کے مستقبل کا دارومدار تعلیمی نظام میں موجود خامیوں کو فوری طور پر دور کرنے میں ہے۔