پشاور میں امارت اسلامی افغانستان کے قونصل جنرل حافظ محب اللہ نے کہا ہے کہ پاکستانیوں نے انصار بن کر اپنے افغان مہاجر بھائیوں کی جو مدد کی دنیا کی کوئی قوم اسکی مثال پیش نہیں کر سکتی ہے اگرپاکستان کی مدد شامل حال نہ ہوتی تو افغانوں کے لئے وقت کی دوسپر پاورز سوویت یونین اور امریکہ کو شکست دینا ممکن نہیں تھا، اگر پاکستان اور افغانستان مل کر اتنا بڑا کارنامہ سرانجام دے سکتے ہیں تودونوں برادر پڑوسی ممالک کے لئے تجارت اور ترقی میں مل کرپیش رفت کر نا بھی کوئی مشکل کام نہیں ہے۔انہوں نے ان خیالات کااظہار انسٹی ٹیوٹ آف ریجنل سٹڈیز (آئی آر ایس) پشاور کے زیر اہتمام پاک افغان دو طرفہ تجارتی تعلقات کے موضوع پر منعقدہ سیمینار سے بطور مہمان خصوصی خطاب کرتے ہوئے کیا‘اس موقع پر دیگر مقررین نے بھی خطاب کیا‘اس تلخ حقیقت کو شاید ہی کوئی جھٹلا سکے کہ روس اور امریکہ نے افغانستان میں اپنے طویل قیام کے دوران یہاں کوئی ترقیاتی کام نہیں کئے بلکہ الٹااس غریب اور مفلوک الحال ملک کے انفراسٹرکچر کواپنے قبضے کے دوران ناقابل تلافی نقصان پہنچایاگیا‘ان دونوں سپرپاورزنے اپنے مجموعی تیس سالہ قیام کے دوران افغانستان کی زراعت، ڈیموں کی تعمیر،صنعتی ترقی، کاروباراور معیشت کی بہتری پر کوئی توجہ نہیں دی کیونکہ ان کا مطمح نظر افغانستان کی ترقی نہیں بلکہ اس جنگ زدہ ملک کو اپنا غلام بناکررکھناتھا امریکہ نے افغانستان میں اپنے 20سالہ قیام کے دوران یہاں تعلیم اور صحت کے شعبوں کی بہتری کے حوالے سے ڈھنڈورا تو بہت پیٹا لیکن حقائق اس کے برعکس ہیں کیونکہ اگر امریکہ حقیقی معنوں میں ان دو شعبوں کی ترقی پرتوجہ دیتا تو آج افغانوں کو تعلیم اور صحت کے لئے دربدر کی ٹھوکریں نہ کھانی پڑتیں۔دوسری جانب افغانستان کے حوالے سے دنیا کے دوغلے پن کااظہار اس تلخ حقیقت سے بھی ہوتا ہے کہ اشرف غنی حکومت کا افغانستان کے محض ایک تہائی علاقے پر کنٹرول تھا لیکن ساری دنیا نے اسکی حکومت کو تسلیم کر رکھاتھا جبکہ آج افغانستان کے چپے چپے پر امارت اسلامی کی ایک مستحکم اورپرامن حکومت قائم ہے لیکن دنیا اسے اپنے دوغلے کردارکی وجہ سے تسلیم کرنے کے لئے تیا ر نہیں ہے ایسے میں اگر پاکستان اور افغانستان کے دیگر پڑوسی ممالک ارادہ کرلیں تو افغانستان کو موجودہ بحرانی کیفیت سے نکالنے میں مدد کرسکتے ہیں اس ضمن میں پاکستان پر دیگر ممالک کی نسبت اس حوالے سے بھی زیادہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ ایک تو پاکستان اور افغانستان ڈھائی ہزار کلومیٹرطویل مشترکہ سرحد رکھتے ہیں ثانیاً پاکستان اور افغانستان مذہب اور عقیدے کے علاوہ صدیوں پر مشتمل تاریخی،ثقافتی،لسانی اور تہذیبی تعلقات رکھتے ہیں۔ افغانستان کو قدرت نے بے پناہ معدنی اور قدرتی وسائل دیئے ہیں پاکستان ان سے استفادہ کرسکتا ہے جب کہ پاکستان افغانستان کی خوراک کی اور بعض دیگر ضروریات پوری کرسکتاہے۔ اس بات میں کوئی دوآراء نہیں ہیں کہ اگرافغانستان کی پشت پر پاکستان جیسا دوست پڑوسی ملک نہ ہوتاتو اسکے لیئے وقت کی دوبڑی طاقتوں کو شکست دینا ہرگز ممکن نہیں ہوسکتاتھا لہٰذا یہ دونوں ملک تجارت اور کاروبار میں بھی ایک دوسرے کی سہولیات اور مواقع سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ان دونوں برادر ممالک کے دو طرفہ تجارت میں جوچھوٹے موٹے مسائل حائل ہیں انہیں دونوں جانب کے کاروباری طبقے کی مشاورت سے بات چیت کے ذریعے بآسانی حل کیاجاسکتاہے‘ اس ضمن میں پاک افغان ٹرانزٹ معاہدے بنیادی کرداراداکرسکتے ہیں جب کہ دونوں ممالک باہمی رضامندی اور مشاورت سے ان معاہدوں میں مزید ترامیم بھی کرسکتے ہیں‘چند سال پہلے تک پاکستان کا افغان تجارت میں حصہ 50 فیصد تک تھا جب کہ پچھلے چند سال کے دوران70 فیصد افغان کارگو ایرانی بندرگاہوں بندر عباس اور چاہ بہار منتقل ہوچکی ہے جس کانقصان پاکستان کو اٹھانا پڑ رہاہے‘افغانستان میں ایک مستحکم حکومت کے قیام کے بعد دونوں ممالک کومشترکہ تجارت پر توجہ دینی چاہیے اس ضمن میں گزشتہ دنوں ازبکستان،افغانستان اورپاکستان کے درمیان طے پانے والا سہ فریقی ریلوے ٹریک منصوبہ سنگ میل ثابت ہوسکتاہے‘ پاک افغان تجارت نہ صرف دونوں ملکوں کے مفاد میں ہے بلکہ یہ دونوں جانب خاص کر سرحدی صوبوں کے عوام کے بھی وسیع تر مفاد میں ہے‘دونوں ممالک کے درمیان مشترکہ منڈیوں کے قیام کے ذریعے مشترکہ اہداف حاصل کئے جا سکتے ہیں۔ پاک افغان تعلقات میں مسائل عارضی اور سطحی ہیں،مخالف طاقتیں ان کو ہوا دے کر دونوں برادر ممالک کے درمیان غلط فہمیاں پیدا کرنا چاہتی ہیں‘ مسائل اپنی جگہ موجود ہیں لیکن انہیں دو طرفہ تعلقات پر اثر اندازنہیں ہونا چاہیے‘پاکستان اور افغانستان دنیا کے اہم ترین جیو سٹریٹیک مقام پر واقع ہیں۔ان دونوں ملکوں کی قربت سے پورے خطے کی قسمت بدل سکتی ہے‘ سڑکوں اور ریلوے نیٹ ورک کے ذریعے ان دوطرفہ تعلقات کو بلندیوں تک پہنچایا جاسکتا ہے جس کے لئے دونوں ممالک کی حکومتوں کے ساتھ ساتھ کاروباری طبقے کو کلیدی کرداراداکرنا ہوگا۔