انگریزی کے شاعر شیکسپیئر نے کہا ہے کہ پھول کو جس نام سے بھی پکاروبچے پھول ہوتے ہیں۔ مگر ان کے نام رکھتے وقت ان کے ماں باپ اکثر ناموں کے نئے پن کو سامنے رکھتے ہیں ۔اگر ان کے ہاں کسی معصوم پھول کی ولادت ہو تو بڑی خوشی کی بات ہوتی ہے۔ایک بچہ ہوتا ہے اور درجنوں نام چنے جاتے ہیں۔ مگر ایک پر بھی اتفاق نہیں ہوتا۔ ماں الگ باپ جدا اور ماموں چچا نانی نانا دادی داد اپنے اپنے نام رکھتے ہیں۔ چونکہ وہ اس گھرانے میں کھلنے والا تازہ ہوا کاجھونکا ایک نیا الگ سے خوشبو دینے والا پھول ہوتا ہے تو اس لئے اس کی محبت میں خاندان کا ہر فرد جدا نام تجویزکرتا ہے۔پھر اس حد تک کہ ماں باپ یا دادی دادی کے گھرانے سے کسی نام پر اتفاق ہو جائے تو بھی ننھیال والوں کو اپنی سی محبت میں وہ نام پسند نہیں آتا اور وہ کہتے ہیںکہ آپ بھلے اس کو اپنا نام دیں ہم تو اس کو فلاں نام سے پکاریں گے ۔یہ اس بچے کی معصومیت ہوتی ہے کہ وہ ہر ایک کی آنکھ کاتارا ہوتا ہے ہر ایک کو پیارا ہوتا ہے ۔ہر کوئی اس کا الگ سا نام رکھتا ہے۔یہ تو ہوا نا اس بچے کااعزاز اور اس کی ہر دلعزیزی کہ اس کو سب جداگانہ ناموں سے پکارتے ہیں۔اگر اس کے اما باوا کو مشورہ دیں کہ فلاں نام رکھو تو وہ پرانی نسل کے اس نام کو رد کر دیتے ہیںکہتے ہیں نہیں یہ توبہت پرانانام ہے کوئی نیا سانام ہو۔اس اثناءمیں اگر ان کے صحن میں کوئی پھول کھل اُٹھے تو اس کا وہی نام رکھ لیں۔اس طرح کے کتنے عجیب نام رکھے گئے ہیں۔ ہاںاگر آپ ان کے گھرمیں مہمان گئے اور بچے کو گود میں لے کر کچھ منہ دکھلائی وغیرہ دے دی تو ساتھ پوچھ لیا کہ نام کیا رکھا ہے۔ اس کے جواب میں آپ کے کانوں میں نامانوس الفاظ پر مشتمل کوئی نام انڈیل دیا جائے تو قطعاً گھبرانے کی ضرورت نہیں ۔میرے ساتھ بھی
ایسا ہی ہوا ۔ایک گھر میں جانا ہوا بچی کے بچے کو دیکھا خوشی ہوئی پوچھا نام کیا رکھا ہے۔ اس کے نانی اور نانا تووہیں خاموش رہے اور ان کی چالاک ماں نے ایک نام بتلا دیا ۔میں نے سنا تو دماغ چکرا گیا ۔میں نے پوچھا اس نام کا مطلب کیا ہے ۔انھوں نے جھٹ سے مطلب بتلا دیا جو ظاہر ہے کہ انھوں نے رٹاہوا تھا ۔اس نام کا مادہ معلوم تھا نہ لفظوں کا رُوٹ معلوم تھا ۔ ہمیں تو چکر آنے لگے خود سے کہا بھائی اردو کے پروفیسر بن کر ویسے ہی وقت ضائع کیا ۔تمہیں آخر کس نے پروفیسر بنایا ہے۔یونہی عمر ضائع کر دی جو اس لفظ کا مطلب اس کا مادہ اس کارُوٹ بھی تم کو نہیںآتا ۔میں خاموش ہو رہا کہا کہ اچھا نام ہے ۔میں سیکرٹریٹ میں زکواة کا ایک فارم بھر رہا تھا ۔ درخواست کرنے والے بوڑھے شخص سے پوچھا کہ آپ کا نام کیا ہے کہ خالی خانے میں لکھ لوں۔ اس نے نام بتا دیا۔میں نے عرض گذاری نہیں بابا جی آپ کانام پوچھ رہا ہو۔ اس نے کہا یار میرا ہی نام ہے۔میںبہت حیران ہوا ۔خیر اس کے والد کا نام بھی لکھنا تھا تاکہ یہ مستحقین کی فہرست میں شامل ہوجائے ۔سو والد کا نام پوچھا اس نے پھر ایک ملک کاہی نام لے لیا۔۔میں نے کہا نہیں آپ کے والد کا نام کیا ہے ۔اس نے بدستور اپنی گفتگو جاری رکھی۔ا س نے کہا یہی میرے والد ہی کا نام ہے ۔میںتو حیرانی کے سمندر میں غوطے کھانے لگا۔ بہر حال اس سے ہمارا کیا لینا دینا کہ کوئی اپنے بچے کا کیا نام رکھتا ہے۔اپنی اپنی مرضی ہے۔ہاں مگر نام کسی بھی زبان کا ہو بہت خوبصورت نام ہیں ۔لیکن اس کامطلب بھی معلوم ہو اور اس لفظ میں آواز کا ایسا آہنگ ہو کہ وہ نام کانوں کو سنتے ہوئے بھی بھلامعلوم ہو ۔مگراس معاملے میں خوب تحقیق کر لینی چاہئے اور اچھا سا نام رکھنا چاہئے جو آپ کی پسندکے مطابق بھی ہو اور مطلب بھی خوب ہو پھر وہ نام پکارتے ہوئے زبان کو بھی اچھا لگے اور کانوں میں بھی رس گھولے ۔زیادہ بہتر تو یہی ہے کہ جو نام ہمارے دین میں پسندیدہ ہوںبچوں کے وہی نام رکھے جائیں۔