اہم ملکی اور بین الاقوامی امور کا طائرانہ جائزہ

 مخدوش مالی صورت حال کے باجود محنت کشوں کی کم ازکم ماہانہ اجرت 32 ہزار مقرر کرنا اس بات کی غمازی کرتاہے کہ حکومت وقت کو عام آدمی کی زبوں حالی کا احساس ہے۔ وزیر خارجہ نے یہ بیان دے کر دانشمندی کا مظاہرہ کیا ہے کہ پاکستان کو سپر پاورز کی بلاکس سیاست سے کوئی سروکار نہیں ۔ہم اس جھمیلے میں نہیں پڑنا چاہتے ان کی افغانستان کو یہ پیشکش بھی بجا ہے کہ اگر کابل کو دہشتگردوں کا قلع قمع کرنے کیلئے پاکستان کی معاونت کی ضرورت ہے توہم اس ضمن میں اس کی مناسب امداد کر سکتے ہیں۔ وزیر اعظم نے بھارت کو ایک مرتبہ پھر مذاکرات کی پیش کش کر کے یہ ثابت کر دیاہے کہ پاکستان اس خطے میں امن کے قیام کا کس قدر خواہاں ہے اور وہ بھارت کے ساتھ اپنے تمام تنازعات کو گفت و شنید کے ذریعے طے کرنا چاہتا ہے۔ ان کا یہ کہنا بالکل درست ہے کہ اگر جوہری تصادم ہوا تو یہ بتانے کیلئے کوئی نہیں بچے گا کہ ہم کون تھے ان کا یہ کہنا بھی درست ہے کہ امریکہ سے ایسے تعلقات نہیں چاہتے جس میں دونوں ایک دوسرے کو دھوکا دینے کی کوشش کریں۔ تازہ ترین عالمی سیاسی حالات پر اگر ایک طائرانہ نظر ڈالیں تو وہ اچھے دکھائی نہیں دیتے ۔بھارت میں ہریانہ کی ریاست میں ہندو مسلم فسادات زور پکڑ رہے ہیں۔ اس بات میں اب کوئی شک نہیں کہ مودی سرکار جان بوجھ کر خود یہ فسادات کر وا رہی ہے کیونکہ اس کے کارندے بھارت میں مقیم مسلمانوں کو بار بار کہہ چکے ہیں کہ اگر بھارت میں رہنا ہے توہندو مت اختیار کر کے رہنا ہو گا ورنہ پھر پاکستان چلے جاﺅ۔حیرت اور دکھ اس بات پر ہے کہ اس قسم کی اقلیت کش پالیسی پر اقوام متحدہ میں شامل ممالک کا ضمیر بالکل نہیں جاگ رہا، ادھر یوکرین اور روس کا قضیہ بھی ختم ہوتا دکھائی نہیں دے رہا کیونکہ امریکہ یوکرین کی ہلہ شیری سے باز نہیں آ رہا۔ ادھر چین کی کوشش بسیار کے باوجود کہ امریکہ تائیوان کو اس کے خلاف اُکسانا چھوڑ دے، واشنگٹن چین کے خلاف تائیوان کی پشت پناہی سے باز نہیں آ رہا۔
 قطع نظر اس بات کے کہ الیکشن نئی مردم شماری کے تحت ہونے چاہئیں یا نہیں ۔کیا یہ ضروری نہیں کہ قوم کو بتایا جائے کہ اخر ایسا کیوں ہوتاہے کہ وطن عزیز میں مردم شماری بروقت نہیں کی جاتی اور ہر مرتبہ اس میں کوئی نہ کوئی مسئلہ ضرور رہ جاتاہے۔مردم شماری کی اہمیت سے کسی کو انکار نہیں تو پھر کے صاف و شفاف اور بروقت ہونے کیلئے کیوں خاطر خواہ انتظامات نہیں کئے جاتے ۔ اب کی مردم شماری تو ہو گئی ہے اور وزیر اعظم کا یہ اعلان بھی باعث اطمینان ہے کہ نئے انتخابات نئی مردم شماری پر ہوں گے تاہم ضروری ہے کہ مردم شماری کی اہمیت کو مد نظر رکھتے ہوئے اس مقصد کیلئے خصوصی انتظامات کئے جائیں کہ آئندہ مردم شماری کم از کم اپنے وقت مقررہ پر ختم کی جاے تاکہ پلاننگ کمیشن آف پاکستان کے پاس ملک کے لئے ترقیاتی منصوبے تشکیل دیتے وقت آبادی کے تازہ ترین اعدادوشمار موجود ہوں۔اس طرح یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ ہماری ملکی ترقی اور خوشحالی کی منصوبہ بندی میں بروقت اور غیر متنازعہ مردم شماری کا اہم کردار ہے ۔اب ایک اور اہم معاملے کا تذکرہ دلچسپی سے خالی نہیں ہوگا کہ اگر یورپی یونین کے ممالک اپنے مالی عسکری اور معاشی مفادات کے تحفظ کے واسطے یک جان دو قالب ہو سکتے ہیں تو آخر اس خطے میں پاکستان ایران افغانستان اور ترکی کیوں ایسا نہیں کر سکتے آپ ذرا سوچئے اگر یہ چار ممالک آپس میں ایک معاشی اور دفاعی الائنس تشکیل دے دیں کہ جس میں یہ طے کر لیا جائے کہ اگر ان میں سے کسی پر بھی کسی باہر کے ملک نے حملہ کیا تو وہ 
ان چاروں ممالک پر حملہ تصور کیا جائے گا اور یہ کہ خارجہ امور میں یہ چاروں ممالک کی پالیسی اتفاق رائے سے طے کی جائے گی تو اس سے خطے کی تعمیر و ترقی میں انقلابی بہتری آسکتی ہے ۔ اسی طرح یہ چار ممالک آپس میں ایک مشترکہ تجارتی پالیسی بھی اگر مرتب کر لیں کہ جن سے ان سب کو معاشی اور مالی طور پر مساوی فائدہ ہو تو یہ ممالک کبھی بھی بیرونی قرضوں کے محتاج نہ ہوں گے ۔پر ان چاروں کو مندرجہ بالا مقاصد کے حصول کیلئے ایک پلیٹ فارم پر لانے کیلئے اس ملک میں ذوالفقار علی بھٹو جیسا وژن رکھنے والے وزیر خارجہ کی ضرورت ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ بھٹو مرحوم کی ذاتی کاوش کا نتیجہ تھا کہ جس کی بدولت ان کی ایک آواز پر 1974 میںہونے والی اسلامی ممالک کے سربراہوں کی کانفرنس میں عالم اسلام کے تقریبا ً تمام سربراہ لاہور میں جمع ہو گئے تھے۔آج بھی اگر ہم سفارتی محاذ پر ایک متحرک حکمت عملی کو بروے کار لاکر کم از کم ایران، ترکی اور افغانستان کی لیڈرشپ کو ایک معاشی بلاک بنانے پر راضی کریں بعد میں دیگر ممالک کو بھی اس میں شامل کرنے پر سوچا جا سکتا ہے۔ہمیں یہ تسلیم ہے کہ اس آئیڈیا کو عملی جامہ پہنانا کوئی سہل کام تھوڑی ہے پر اس کے حصول کے لئے کوشش کرنے میں بھلا کیا قباحت ہے۔ اس وقت دیکھا جائے تو علاقائی معاشی روابط اور بلاک بنانے کا دور ہے ۔ دور دراز ممالک کی بجائے اگر خطے کے ممالک مل کر آپس میں تجارت کو فروغ دیں تو اس سے پورے خطے کی تعمیر و ترقی کا سفر تیز ہوگا۔پاکستان کے ساتھ چین کی اہم آہنگ میں تو کوئی شک نہیں اور ا س نے جس طرح سی پیک منصوبے کے ذریعے پاکستان کی ترقی کادروازہ کھولا ہے اس میں اگر دیگر ممالک بھی شامل ہوں تو اس سے نہ صرف ان ممالک کی معاشی ترقی اور استحکام کو یقینی بنایا جاسکتا ہے بلکہ یہ خطہ پوری دنیا کیلئے خوشحالی اور ترقی کا باعث ہوگا۔ اس سلسلے میں اگر اب بغیر کسی تاخیر کے اقدامات کی طرف توجہ دی جائے تو یہ پورے خطے کیلئے اہم پیش رفت ثابت ہوگی۔