خدا عمر میں برکت دے‘ پھر دعا یہ کرنی چاہئے کہ مال و دولت میں برکت ہو‘لیکن یہ دعا بھی کہ خدا وقت میں برکت عطا کرے ‘وہ کہتا ہے کہ میں اپنے سارے کام نپٹا لیتا ہوں او رپھر بھی میرے پاس بہت وقت بچتا ہے‘یہ اسکی روٹین ہے‘روزانہ وہ قریب کے پارک میں جا کر وہاں نماز بھی ادا کرتا ہے اور ساتھ جاگنگ بھی کرتا ہے اور پھر ویسے ہی بیٹھا بھی رہتا ہے‘کہتا ہے نیند بھی پوری کرتا ہوں جب وہ وقت کے لحاظ سے زردار ہونے کی بات کرتا ہے تو مجھے حیرانی ہوتی ہے ‘پھر پشیمانی بھی دامن کو گھیر لیتی ہے کہ ہم نے تو سب کچھ گنوا دیا۔ سوچ میں پڑجاتا ہوں کہ صاحب کیسے وقت نکال پاتے ہیںیاتو مذاق کرتے ہیں یا پھر انکی دماغی صحت میں کمی کے آثار ہیں‘ہرکام کےلئے وہ جب اپنا وقت دے چکتے ہیں توسوچتے ہیں کہ اب میں کیا کروں مجھے کیا کرنا چاہئے۔ ان کی یہ باتیں سن کر میں اپنے آپ کو دیکھتا ہوں کہ میرے پاس تو وقت ہی نہیں ‘ایک گھنٹہ بھی فالتو نہیں ایک منٹ بھی پاس نہیں‘سوچتا ہوںچوبیس گھنٹے تو قدرت نے ودیعت کر رکھے ہیں یہ پچیسواں گھنٹہ جس کا بہت چرچا ہے کیسے نکال پا¶ں‘کیونکہ کہا جاتا ہے کہ پچیسواں گھنٹہ ہوتا نہیں نکالنا پڑتا ہے‘مگر ہم میں تو اتنی صلاحیت بھی نہیںکہ یہ اضافی ٹائم اپنے ٹائم ٹیبل سے نکالیں‘سوچتا ہوں ہم ایسے مصروف بھی تو نہیں ‘شاید فراغت میں مصروف ہیں ‘بیٹھے رہتے ہیں بلکہ گھنٹوں بیٹھے رہتے ہیں ’ حضرتِ داغ جہاں بیٹھ گئے بیٹھ گئے‘ہم وقت کی کمی کے شاکی ہیں اور صاحب کے پاس وقت ہی وقت ہے۔کہیں جانا ہو کسی کو بلانا ہو ہم بہت دیر کر دیتے ہیں‘آج کل زندگی سے جو سب سے ب©ڑا گلہ ہے یہی ہے کہ وقت نہیں ملتا ‘صبح اٹھو تو معلوم نہیں کیسے وقت تیزی سے گذر جاتا ہے اور شام کی اذانوں سے ہوائیں اور فضائیں گونجنے لگتی ہیں ‘پھر رات کے اندھیرے چھا جاتے ہیں‘مگر صاحب کی بات پر یقین نہیں آتا کہ سب کام نپٹا کر بھی ان کے پاس بہت وقت بچ جاتا ہے اتناکہ وہ ادھر ادھر دیکھتے ہیں کہ اب کیا کیا جائے‘ واہ جی واہ۔کاش ہم بھی ایسے ہوتے‘مگر ہم جیسے ہیںویسے کیوں ہیں اس پرپہروں سوچتے رہتے ہیں شاید اسی میں ہمارا کافی وقت نکل جاتا ہے اور کوئی حل نہیں نکل پاتا ‘ہم انھیں رشک کی نگاہ سے دیکھتے رہ جاتے ہیں‘جی میں آتا ہے کہ انکی صبح تا شام سرگرمیوں پر گہری نگاہ رکھیں اور سیکھیں کہ وہ ٹائم کیسے نکال لیتے ہیں‘آج کل تو خاص طور پر جب کوئی سرمحفل ملتا ہے او رنہ ملنے کا گلہ کرتا ہے توکہتے ہیں اجی وقت کہاں ہے وقت ہی نہیں ملتا۔پھرجواب آتا ہے کہ آدمی جتنا بھی مصروف ہو اپنوں کےلئے اپنے پیاروںکے لئے وقت نکالناپڑتا ہے ‘وقت آج کل کسی کے پاس نہیں‘شاید گا¶ںمیں لوگوں کے پاس وقت ہوتا ہوگا ‘ مگر صاحب تو شہر میں رہتے ہیں ‘یہاں رہ کر بھی انکے پاس وقت ہی وقت ہے یہ نئی دنیا کی بڑی دریافت ہے‘کیونکہ گا¶ں کے لوگ بھی ا س بات کا شکوہ کرتے ہیںکہ یار ٹائم ہی نہیںملتا ہے کہ بندہ کوئی اور کام کر سکے کسی سے ملنے کو جاسکے کسی کو گھربلاسکے‘ایسا بھی نہیں صاحب پڑھے لکھے نہیں پھرایسا کہاں کہ کوئی ان کے پاس آتا جاتا نہ ہو۔ خیر سے ڈاکٹر ہیں او روہ بھی پی ایچ ڈی جن کے پاس ایم فل کرنے والوں کے تھیسس چیک ہونے کو آتے ہیں‘مگر ہیں وہ فارغ‘اس پرتو ہمیںبہت حیرانی ہے‘ہمارے توبیسیوںکام سرکھارہے ہیں۔ کمرے کی حالت بری ہے‘جوچیزجہاںرکھی وہاںپڑی رہتی ہے ‘اتنا وقت نہیں ملتا کہ اسے وہاں سے اٹھا کر دوسری جگہ رکھ سکیں‘ بلکہ خاتون خانہ کو سختی سے ہدایت جاری کر رکھی ہیں کہ کسی چیز کو ہاتھ نہیں لگانا‘یہی وجہ ہے کہ پورا گھرصاف ستھرا ہے مگر فقط ایک ہمارا کمرہ ہے جہاں دھول کا بسیرا ہے کتابیں کاغذ اور فائلیں ادھر ادھر بکھری ہیں‘وقت ہی نہیںملتا کہ انہیں درستی سے رکھا جائے‘کمپیوٹر کی ہارڈ ڈسک میں دنیا جہان کا کام رکھا ہوا ہے ۔ڈر ہے کہ ہارڈ ڈسک نہ اڑ جائے مگر اتنا وقت نہیں کہ ان فولڈر اور فائلوں کو ایک ترتیب کےساتھ رکھ کر پرنٹر پر سے ان کا پرنٹ ہی نکال کر انھیں گم ہونے سے بچا لیں‘مگر ٹھہریں یہ کام بھی تو ہم کر چکے ہیں کمپیوٹر میںدو ایک کتابیںتھیں جن کا پرنٹ لے کر فائل بنا کر سنبھال کر رکھ لیں تھیں مگر اب یاد نہیںکہاں گئیں اور ہارڈ ڈسک تو کیا یو ایس بی میں محفوظ جو تھیںوہ بھی اس بجلی کے شرارتی پرزے میںسے غائب ہیں‘آدمی جائے تو کہاں جائے‘اتنا وقت نہیں کہ نیند پوری ہو ۔ نیند پوری کریں تو باقی سرگرمیوں کے لئے وقت نہیں بچتا اور نیند نہ کی جائے تو سارا دن اونگھتے رہتے ہیں ۔بجلی کاسوئچ بھی خراب ہے تو خراب ہے اور پانی کا نلکا بھی اگر تبدیل کرنا ہے تو تبدیلی آ ہی نہیں رہی ہے ‘کیونکہ وقت کی کمی آڑے آتی ہے ‘ہماری تو ایجوکیشن کی دنیا میں ہفتہ کی چھٹی نہیں ہوتی ‘پھر اتوار کو کیا کیا کریں کسی گیدرنگ میں جائیں یا ہفتہ بھر کی نیند پوری کریں‘سمجھ میں نہیں آتا کیا کریں ۔