ہمارے اکثر لکھاری تاریخ نویس اور سیاسی مبصرین جب بھی کسی معروف شخصیت کے بارے میں رقمطراز ہوتے ہیں تو وہ تصویر کا صرف ایک ہی رخ دکھلاتے ہیں دوسرے رخ کو وہ نہ جانے کیوں عوام سے چھپاتے ہیں ہر انسان کے کردار کا صرف ایک پہلو نہیں ہوتا دوسرا پہلو بھی ہوتا ہے۔ اب دیکھئے نا پاکستان کے ایک سابق صدر جنرل سکندر مرزا کے حوالے سے بہت کچھ لکھا جاتا ہے پر بہت کم لوگوں کو پتہ ہے کہ وہ صدر بننے سے پہلے ایک لمبے عرصے تک سابق فاٹا کے کئی علاقوں میں بطور اسسٹنٹ پولیٹیکل ایجنٹ بھی فائز رہے اور پشاور کے ڈپٹی کمشنر بھی ۔اگر وہ اپنے ان مناصب پر تعیناتی کے دوران مال بناتے تو اپنی آخری عمر میں ان کو دال روٹی کمانے کیلئے نجی اداروں میں نوکری نہ کرنا پڑتی۔ جب1958 میں ان کی حکومت ختم ہوئی تو ان کے پاس کوئی سرمایہ نہیں تھا بلکہ انہیں گزر بسر کیلئے
نجی ادارے میں نوکری کرنا پڑی۔اسی طرح ایک اور سابق صدرپاکستان جنرل یحییٰ خان کے حوالے سے تو بہت لکھا گیا ہے پر کسی نے یہ نہیں لکھا کہ وہ سرکاری کاموں میں اپنے کسی بھی رشتہ دار کی سفارش نہیں مانتے تھے ۔مارشل لا کا دور تھا اور ایک منشیات کے سمگلر کو سزا سے بچانے کیلئے جب جنرل یحییٰ خان کے قریبی رشتہ دار نے ان کو سفارش کی کہ ملزم کو کوڑے نہ لگائے جائیں تو انہوں نے ایسا کرنے سے صاف انکار کر دیا جس پر ان کے قریبی رشتہ دار ان سے ناراض ہو گئے اور تو اور ان کی سگی ہمشیرہ ان سے اس وقت ناراض ہو گئی کہ جب انہوں نے اپنے بھائی سے کہا کہ سابقہ مشرقی پاکستان میں تعینات ان کے فوجی بیٹے کو کہ جو اس وقت فوج میں میجر تھا وہ مغربی پاکستان ٹرانسفر کر کے اپنے ساتھ ADC لگا دیں تو انہوں نے اپنی بہن سے کہا کہ جہاں اور میجر ڈیوٹی کر رہے ہیں تو کوئی پروا نہیں کہ اس کا بیٹا ملک کی سالمیت کی جنگ میں ملک پر قربان ہو جائے۔ اسی طرح غلام اسحاق خان سابق صدر پاکستان کی مالی دیانتداری ضرب الامثل ہے۔ صدارت کے عہدے پر فائز ہونے سے پیشتر وہ وطن عزیز کی تقریبا ًہر اہم پوسٹ پر تعنیات رہے پر ان کے سخت سیاسی حریف بھی آج مانتے ہیں کہ مالی لحاظ سے ان کا دامن ذرا بھی داغدار نہیں۔ ان کی رحلت کے وقت ان کی
ذاتی ملکیت اتنی ہی تھی کہ جو ان کو والد کی طرف سے ورثے میں ملی تھی۔ اس میں ایک روپے کا اضافہ بھی نہیں ہوا تھا۔ جاتے جاتے ایک اور بات بھی پڑھ لیجیے گا سید فرید اللہ شاہ ایک سینئر بیوروکریٹ گزرے ہیں انہوں نے ایک دفعہ ہمیں بتایا کہ نیا نیا پاکستان بنا تھا اور خیبر پختونخوا جو ان دنوں صوبہ سرحد کہلاتا تھا اس کے سرکاری گاڑیوں کے پول میں وزرا ءکے استعمال کے لیے صرف پانچ گاڑیاں تھیں۔ ان میں ایک گاڑی تو وزیر اعلیٰ کیلئے مختص کر دی گئی اب مسئلہ یہ تھا کہ گاڑیاں چار بچی تھیں اور وزیر تھے پانچ۔ تو ان وزراءنے یہ فیصلہ کیا کہ کوئی بات نہیں ہم ایک گاڑی باری باری استعمال کر لیا کریں گے کہ خزانے میں اتنی رقم نہ تھی کہ ایک نئی گاڑی خریدی جا سکتی۔ چنانچہ یہ صورت حال پورے ایک برس رہی۔تا وقتیکہ کہ نئے مالی سال میں ایک اور گاڑی خریدی گئی ۔