دنیا بھر میں دودھ پلانے کا عالمی ہفتہ یکم اگست سے جاری ہے اور ہر سال کی طرح اِس مرتبہ بھی عالمی دن کے حوالے سے چند روزہ تقریبات کا انعقاد ہو رہا ہے جس میں مختلف موضوعاتی پہلوو¿ں پر روشنی ڈالی جا رہی ہے جبکہ برسرزمین حقیقت یہ ہے کہ بچوں کی نشوونما اور اُن کی تربیت کے کئی ایک ایسے پہلو ہیں جو فیشن کی نذر ہو چکے ہیں! اِس حوالے سے اقوام متحدہ کے ذیلی اداروں (یونیسیف اور ڈبلیو ایچ او) کی مرتب کردہ مشترکہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سال دوہزاراکیس میں صرف تئیس ممالک میں ماں کا دودھ پلانے کی شرح پاکستان سے قریب دوسوفیصد زیادہ ہے۔ اسی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ پاکستان میں صرف ساٹھ فیصد مائیں چھ ماہ تک اپنے بچوں کو دودھ پلاتی ہیں اور یہ اعداد و شمار مایوس کن ہیں۔ طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ بچے کی جسمانی اور ذہنی نشوونما کے لئے ماں کا دودھ ضروری ہے جبکہ خاندانی نظام کے زوال پذیر ہونے کے ساتھ اُن طور طریقوں میں تیزی سے تبدیلی آئی ہے ۔ بچوں کو ماں کا دودھ نہ ملنا اُن کی حقوق تلفی ہے۔ بچوں کو ماں کا دودھ نہ پلانا درحقیقت اطفال کی دیکھ بھال کا فقدان ہے۔ زیادہ تر معاملات میں‘ ایک ماں کو گھر کے کام کاج اور بچے کی دیکھ بھال میں توازن رکھنا پڑتا ہے۔ ان کے لئے بچوں کو فارمولا دودھ کی بوتل (فیڈر) تھما دینا آسان ہے۔ اس کے علاوہ‘ زیادہ تر نوجوان مائیں (خاص طور پر وہ جو مالی طور پر مستحکم نہیں ہوتیں) اپنے حمل کے دوران مشکل سے ضروری غذائیت حاصل کرتی ہیں اور اس طرح کم غذائیت والے فارمولا دودھ پر انحصار کرنے پر مجبور ہوتی ہیں۔ یہ تشویشناک امر ہے کہ پالیسی ساز ماو¿ں میں غذائی قلت اور کمزوری کے مسائل پر کوئی توجہ نہیں دیتے۔ بچوں کی نگہداشت مشکل عمل ہے اور زیادہ تر ماو¿ں کو صحت یاب ہونے میں وقت لگتا ہے لیکن ماو¿ں کی صحت کو معاشرے میں کم ترجیح کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ اب زیادہ تر لوگ جس طرز زندگی کی عادی ہیں اس کو دیکھتے ہوئے وہاں نامیاتی کھانے کی اشیا نایاب ہو رہی ہیں اور خواتین کی صحت متاثر ہے۔ اس مسئلے پر توجہ نہ دینے کی وجہ سے زیادہ تر خواتین کھانے پینے کی ایسی عادات رکھتی ہیں جو ان کے بچوں کے لئے صحت مند نہیں۔ اس کے علاوہ ایک ایسی دنیا جہاں صحت سے متعلق معلومات بہت ہی کم ہیں اور مارکیٹنگ کی وجہ سے صارفین اشیاء پر اندھا اعتماد کرتے ہیں جو مارکیٹنگ کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ اور عمل دخل کو ظاہر ہوتی ہے‘ بہتری اِسی میں ہے کہ بچوں کی صحت کا خیال رکھتے ہوئے خوردونوش کے غیرصحت مند طریقے اپنانے سے گریز کیا جائے۔ سال دوہزاراکیس میں بچوں کو بغیر کسی طبی مجبوری یا ضرورت فارمولا دودھ تجویز کرنے کو ”جرم“ قرار دیا گیا تھا لیکن زیادہ تر طبی مراکز میں دو سال سے کم عمر بچوں کو فارمولا دودھ تجویز کیا جاتا ہے جس کی بنیادی وجہ ملٹی نیشنل کمپنیوں کی ’کامیاب مارکیٹنگ‘ ہے۔ ’احتیاط‘ ضروری ہے۔ اب وقت آگیا ہے کہ بچوں کوطبی مجبوری یا ضرورت کے بغیر فارمولہ دودھ سے بچائیں۔اِس سلسلے میں ماو¿ں کو زیادہ آگاہ کرنے کی بھی ضرورت ہے۔ایک صحت مند اور وشن مستقبل کیلئے ضروری ہے کہ نئی نسل کی نگہداشت اور ان کی تربیت پر خصوصی توجہ دی جائے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ ایک بچے کی زندگی کا اہم ترین مرحلہ شیر خوار ی کی عمر ہے اگر اس وقت بچے کی صحت کا خیال رکھا جائے تو آگے جاکر بچے صحت مند اور بیماریوں کامقابلہ کرنے کے قابل ہوجاتے ہیں۔ایک بچے کیلئے ماں کا دودھ ہر طرح کی بیماریوں کامقابلہ کرنے کیلئے ایک ٹانک ہے جس کا متبادل کوئی نہیں۔یہ الگ بات ہے کہ بسا اوقات مجبوری کے تحت بچوں کو ڈاکٹر کے مشورے پر فارمولا دودھ پلانے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہوتا۔ تاہم اولین ترجیح بچوں کو ماں کے دودھ کا حاصل ہونا ہے۔