جاندار اوربے جان کا توازن

ماحو لیات اور مو سمیاتی تغیر کے نتیجے میں جو مسائل پیدا ہوئے ہیں ان کے حوالے سے ماہرین کہتے ہیں کہ اگرتر قی پذیر مما لک میں ماحولیاتی توازن کو درست کیا جائے تو اس سے حالات بہت بدل سکتے ہیں۔ما حولیاتی توازن ایک فنی اور تکنیکی اصطلاح ہے اس کا سادہ اور آسان مفہوم یہ ہے کہ کر ہ ارض پر جانداروں اور بے جان اشیاءکی تعداد اور وزن میں منا سب توازن ہو اگر بے جان چیزوں کا ڈھیر لگ جائے گا تو جاندار مخلوق کےلئے جینا مشکل ہو جائے گا مو جو دہ حا لات میں سائنسدانوں نے خبر دار کیا ہے کہ آنے والے دنوں میں یہ توازن بگڑ نے والا ہے ما ہرین نے جو اعداد وشمار پیش کئے وہ عقل کو حیران کر دینے والے ہیں مثلا ً غور کیجئے کہ اس وقت کر ہ ارض پرحیوا نات اور نبا تات کی جو انواع سانس لیتی ہیں اور خواراک حا صل کر تی ہیں ان کی مجمو عی تعداد 10کھر ب ہے اور خطرے کی بات یہ ہے کہ کرہ ارض پر انسانی آبادی نے لوہے ،پلا سٹک ،پتھروں اور چٹا نوں سے جو ما ل تیا ر کیا ہے اس کا وزن بھی 10کھرب میڑک ٹن کی تعداد میں ہے آگے امکان یہ ہے کہ آنے والے 100سالوں میں جا ندار اشیاء، حیوا نات اور نبا تات کی انواع میں کمی آئیگی کیونکہ گذشتہ 100سالوں میں ایساہی ہوا ہے اس کے مقا بلے میں لوہے ، پلاسٹک اور پتھروں کا وزن مزید بڑھ جائے گا ہمارے کارخانے ، بازار ، پلا زے اور آسمان کو چھونے والی عما رتیں جاندار مخلوق کےلئے زہر اگلنے کا عمل مزید تیز کرینگیں‘ ہمارے کا رخانے مزید آلودگی پیدا کرینگیں اور ہماری آبادیوں کا ٹھوس یا مائع فضلہ ما حول کےلئے مزید خطرات پیدا کرے گا عام زبان میں اس کو بیان کیا جائے تو یوں کہا جائے گا کہ جاندار مخلو قات میں کیڑے مکو ڑوں کی 10لا کھ اقسام پا ئی جا تی ہیں شہر ی اور دیہی بستیوں میں عام طور پر نظر آنے والی مخلوق چیو نٹی ہے جو کیڑے مکوڑوں کی اقسام میں سے ہے اس وقت انسا نی آبادی نے لو ہے ، پتھر اور پلا سٹک کی مصنو عات کے ذریعے چیو نٹی کے اوپر ایک میٹرک ٹن غیر ضروری اور غیر فطری وزن ڈال دیا ہے وقت گذر نے کے ساتھ اس وزن میں اضا فہ ہورہا ہے اس بیاں کو مزید آسان لفظوں میںپیش کیا جائے تو یوں کہا جا سکتا ہے کہ ہمارے دیہات اور شہروں میں گذشتہ 100سا لوں کے اندر پر ندوں کی کم از کم 25اقسام معدوم ہو چکی ہیں 1960اور 1970کے عشروں میں ڈی آئی خا ن ، سوات ، کو ہستان اور چترا ل میں جو پرندے اڑتے پھرتے یا چہکتے ،چگتے نظر آتے تھے ان میں سے کئی پر ندے آج نظر نہیں آتے چڑیوں کی انواع بھی گُم ہو گئی ہیں عقا بوں کی انواع بھی معدوم ہو چکی ہیں یہ انواع کیسے معدوم ہو گئیں ؟ عام آدمی اس سوال کا ایک جواب دیتا ہے ہم نے کیڑے مار دواوں کا سپرے کیا ، ہم نے مٹی میں کیمیا ئی کھا د کا زہر ملا یا ، ہم نے پا نی میں بازار ، گھر وں اور کا رخا نوں کا خطرنا ک زہر ملا دیا ہم نے جا ندار انواع کے جینے کے راستے بند کر دئیے دیکھا جائے توخشکی اور تری میں انسان کے ہاتھوں ماحولیاتی توازن میں جو بگاڑ آیا ہے اس کے نتائج انسانوں کو ہی بھگتنا پڑ رہے ہیں۔ نیپا لی ز بان کا شاعر کہتا ہے ”اے لوگو ! تو نے درختوں کو کاٹ کر روپیہ بنا لیا ، پرندوں اور جانوروں کا شکا رکر کے روپیہ بنا لیا تمہاری آنے والی نسلوں کے لئے روپیہ کے سوا کچھ بھی نہیں بچا کیا تمہاری آنے والی نسلیں روپیہ کھا کر گذر بسر کرینگی ، ہمار ے سامنے جا ندار مخلوق اور بے جان اشیاءمیں توا زن پیدا کر نے کا ایسا ہی چیلنج ہے ۔جس کا سامنا کرنے کے لئے سب کو مل کر ایسے اقدامات کی طرف توجہ دینا ہوگی جس سے یہ توازن برقرار رہے موسمیاتی تبدیلی کے اثرات اس وقت پاکستان پر جس قدر نمایاں طور پر مرتب ہو رہے ہیں شاید ہی کوئی اور ملک اس سے زیادہ بڑے پیمانے پر متاثر ہو‘ گزشتہ کی طرح اس سال بھی مون سون میں جو جانی اور مالی نقصانات کا سامنا ہوا ہے یہ براہ راست موسمیاتی تبدیلی کے اثرات ہیں جس نے وقت گزرنے کے ساتھ مزید شدت کے ساتھ سامنے آنا ہے اس لئے ضروری ہے کہ ابھی سے ان اثرات کا راستہ روکنے کے لئے اقدامات کئے جائیں۔