ریاست کا چوتھا ستون 

صحافت کو ریاست کا چوتھا ستون کہا جاتا ہے کیونکہ لوگوں کے سیاسی اور سماجی شعور کی تشکیل میں اخبارات بڑا اہم کردار اداکرتے ہیں یہی وجہ ہے کہ حکمرانوں کواس کا پورا پورا ادراک ہوتا ہے ‘ اگر آپ برصغیر کی صحافتی تاریخ پر ایک نظر ڈالیں تو آپ کو پتہ چلے گا کہ سب سے پہلا اخبار جو اس خطے میں شائع ہوا وہ ایک ہفتہ وار اخبار تھا جس کا نام تھا بنگال گزٹ اور وہ 1780 ءمیں کلکتہ سے نکالا گیا تھا اس کا ایڈیٹر ہکی نامی ایک فرنگی تھا وہ چونکہ ایسٹ انڈیا کمپنی کے اہلکاروں کی سیاہ کاریوں کے پردے چاک کیا کرتالہٰذااس لئے اسےدو مرتبہ گرفتار کیا گیا اور بالآخر ملک بدر کر دیا گیا بنگال گزٹ کے بعد کلکتہ مدراس اور ممبئی سے تقریباًایک درجن۔ ھفت روزہ اخبارات چھپنے لگے‘ فارسی زبان میں اخبار 1822 ءمیں شائع ہوا اور اس کے ایک سال بعد اردو زبان میں پہلا اخبار نکلا دلچسپ بات یہ ہے کہ فارسی اخبار کے ایڈیٹر راجہ رام موہن رائے تھے اور اردو اخبار کے ایڈیٹر کا نام تھا منشی سدا‘ آج بھی عالمی سطح پر بعض روزناموں کی بڑی اہمیت ہے کہ جیسے وال سٹریٹ جرنل فا رن افیرز نیویارک ٹائمز واشنگٹن پوسٹ ڈیلی ٹیلی گراف دی ٹائمز لندن فار ایسٹرن اکنامک ریویو وغیرہ ماضی میںبرصغیر سے شائع ہونے والے روزناموں ٹائمز آف انڈیا‘ ڈان ‘پاکستان ٹائمز‘ سول اینڈ ملٹری گزٹ وغیرہ نے تقسیم ہند کی تحریک میں نمایاں کردار ادا کیا تھا۔ اب ذرا ایک نظر ادھر بھی ڈالتے ہیں‘یہ صرف وطن عزیز کا ہی المیہ نہیں کہ زندگی کے ہر شعبے میں اچھی قیادت کا قحط الرجال نظر آ رہا ہے دنیا بھر میں یہی حال ہے پہلے ذرا سیاسی لیڈرشپ کی ہی بات کر لیتے ہیں‘ ہم ماضی بعید میں نہیں جائیں گے ‘اپنی تحریر کو صرف ماضی قریب تک ہی محدود رکھیں گے کیا یہ حقیقت نہیں کہ آج ابراھام لنکن جارج واشنگٹن سر ونسٹن چرچل جنرل ڈیگال مارشل ٹیٹو جنرل فرانکو لینن ما ﺅزے تنگ چو این لائی ہوں ‘سوئیکار‘ جمال عبد ا لناصر‘ قائد اعظم ‘گاندھی نہرو‘ نیلسن منڈیلا جولئسس نیارارے جیسے سیاسی فہم رکھنے والے دور اندیش قائدین پیدا نہیں ہو رہے اور ان کا فقدان ہے ‘ زوال صرف سیاسی قیادت تک محدود نہیں‘ اس سے کئی شعبہ ہائے زندگی متاثر ہیں‘ فیلڈ مارشل منٹگمری اور جنرل رومیل جیسے پائے کے جرنیل جنہوں نے دوسری جنگ عظیم میں فوجی نوعیت کے کارہائے نمایاں سر انجام دئیے تھے ‘آج نظر نہیں آ رہے برٹینڈ رسل جیسے فلاسفر کو آج کہاں تلاش کریں ‘کھیلوں کی دنیا میں ہاشم خان‘ ڈونلڈ بریڈمین دھیان چند اور میراڈونا جیسے نابغوں کو کہاں ڈھونڈیں کہ جنہوں نے بالترتیب سکواش کرکٹ‘ہاکی اور فٹبال کی دنیا میں کافی نام کمایا تھا‘ فلم انڈسٹری نے سر آلیور لارنس انگرڈ بر گمن‘ صوفیہ لورین‘ دلیپ کمار‘ مدھو بالا اور پرتھوی راج کپور جیسے فنکار پھر پیدا نہیں ہوئے۔