خوشیاں سب کو نصیب ہوں مگر خوشیوں میں اگر دوسروں کا خیال بھی کیا جائے جن کو وہ خوشیاں حاصل نہیں جو کہ ان کی بنیادی ضرورت ہیں تو ان کو خوشیوں میں سے ان کا حصہ ضرور دینا چاہئے یہ ایک گول پہیے کا سفر ہے کبھی خوشی کبھی غم والی بات ہے‘پشاور کے شاعر ساحر مصطفائی کا شعر یاد آرہا ہے ” جو فاقہ کش ہیں ہمیشہ وہ فاقہ کش ہی رہیں ۔کسی کتاب میں ساحر کہیں لکھا تو نہیں“۔آرہٹ پہ کولہو کے بیل گول گول گھومتے ہیں ۔ کھیت کے لئے کنویں سے پانی نکلتا ہے۔ گول پہیہ جس پر ڈولچیاں لگی ہوتی ہیں وہ کنویں کے اندر جاتی ہیں اور اوپر بھری ہوئی ڈولچیاں آتی ہیں اور قریب واقع نالی میں پانی گرتاجاتا ہے مگر ہر بار ہر ڈولچی بھری ہوئی نہیں بھی آتی ۔بعض ڈولچیاں خالی بھی آتی ہیں۔ مگر ضروری نہیں جو ڈولچی خالی آئے وہ دوسرے چکر میں بھی خالی ہی اوپر آ جائے ‘وہ بھری ہوئی ہوتی ہے ۔اس دنیا کا نظام تو کیا اس کائنات کا نظام اسی طرز پر جاری و ساری ہے ‘کوئی چیز مستقل نہیں ۔غربت مستقل ہے اور نہ امیری پائیدار ہے سب کچھ عارضی ہے غریب ہمیشہ غریب نہیں رہ سکتا ۔اگر اس سے خوشیا ںچھن گئی ہیں تو اس کو واپس بھی مل سکتی ہیں‘پھر جن کو خوشیاں حاصل ہیں ان کو بھی تو ہمیشہ کے لئے نہیں ملی ہوئی ہیں‘ یہ تو ان کی آزمائش ہے کہ وہ روپے پیسے کی ریل پیل میں کس رویہ کا مظاہرہ کرتے ہیں ‘ بہت کم ہیں وہ لوگ جو اپنی خوشیوں میں دوسروں کو بھی شامل کرتے ہیں شادی بیاہ ہو اپنوں کو کھانا بانٹیں گے اور جن کو نہیںجانتے ان کو دھتکاریں گے ان کو معلوم نہیں کہ اگر آج ان کے ہاتھ میں دولت کی کمان ہے توکل وہ اس قابل نہیں رہیں گے ۔ کیونکہ مغلیہ بادشاہ بہادر شاہ ظفر کی مثال سامنے رکھیں ۔پورا برصغیر اس کی جائیداد میں شامل تھا۔ مگر وہ کیا شعر ہے ” کتنا ہے بدنصیب ظفر دفن کے لئے ۔ دوگز زمین بھی نہ ملی کوئے یار میں“ ۔ اس کے اسی شعر کی تعبیر ہے کہ اس کی آخری آرام گاہ اس کی جائیداد میں نہیں ہے بلکہ میانمار کے شہر رنگون میں دفن ہے ۔وہ اس کسمپرسی کی حالت میں فوت ہوا کہ اب اس کے مزار پر لوگ جاکر حاضری دیتے ہیں ‘اسی لئے نیاز مند نے کالم کا سٹارٹ اس پوائنٹ سے لیا کہ اپنی خوشیوں میں دوسروں کو بھی شریک کریں ۔مراد یہ ہے کہ یہاں شادی بیاہ ہوتے ہیں عقیقہ اور ختنہ اور منگنیاں ولیمہ اور باراتیں او رمہندیاں نکلتی ہیں ۔ لاکھوں نہیں تو ہزاروں روپوں کے نوٹ سروں کے اوپر وار کے پھینکے جاتے ہیں۔اگر ایک آدمی کے پاس اتنے فالتو ہیں کہ وہ اپنی ذات کی نمائش کے لئے ویل دے کر زمین پر نوٹوں کے ڈھیر لگا دیتا ہے تو اس کو چاہئے کہ اس کے علاقے میں جو غریب غرباءہیںان کی مدد کو کمر کس لے ۔اگر ویل دینی ہے تو ایک حد تک اچھا لگتا ہے ۔مگر بے انتہا اور بے تحاشا اپنی دولت کا دکھاوا الٹا اس خالق و مالک کی ناراضگی کا سبب بن سکتا ہے۔ہر گلی محلے میں غریب غرباءبستے ہیں جن کے بارے میں ہرایک کو جانکاری حاصل نہیں ہوتی ۔ان کو ڈھونڈنا چاہئے کیونکہ وہ ہاتھ پھیلاتے ہوئے آپ کو نظر نہیں آئیں گے ۔ یہ سفید پوش طبقہ درمیانی کلاس کے لوگ ہیں ۔جو نہ تو اپر کلاس ہیں اور نہ لوئر کلاس ہیں ۔اپر والوں کوکسی سے مانگنے کی ضرورت نہیں پڑتی اور نچلے طبقے والے سر عام ہاتھ پھیلا کر مانگ لیتے ہیں مگر مڈل کلاس والوں کا یہ المیہ ہے کہ وہ نہ تو مانگ سکتے ہیں اور نہ زندگی گزار سکتے ہیں۔وہ اندر ہی اندر چپ چاپ اپنی آگ میں جل رہے ہوتے ہیں ‘شمع کی مانند دنیا والوں سے بے نیاز ہو کر اپنی قسمت پر آنسو بہاکر اپنی ہی جھولی اشکوں سے بھرتے رہتے ہیںجو محروم و مجبور و مقہورہیں ان کو دھیرج رکھنا چاہئے ” کہ آج تجھ سے جدا ہیں تو کل بہم ہوں گے ۔ یہ رات بھر کی جدائی تو کوئی بات نہیں “امید اور انتظار صبر اور دعا سے کام لینا ہوگا ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہم خوشی کے عالم میں بھول جاتے ہیں۔ہمیں اپنے گھر والوں اور انتہائی قریب کے رشتہ داروں کے سوا او رکوئی نظر نہیں آتا مگر جب ہم خدا نہ کرے کسی آفت کا شکار ہو کر اپر کلاس سے نیچے لوئر کلاس میں جا داخل ہوتے ہیں تو ہمیں اپنے کرتوت ایک ایک کرکے یاد آتے ہیں مگر اس وقت پلوں کے نیچے سے بہت سا پانی گزر چکا ہوتا ہے۔ہم سمجھتے ہیںکہ جیسے ہم مالدار ہیں ہماری حالت ویسے کی ویسے رہے گی مگر وہ لوگ جو کنجوسی کا مظاہرہ نہیں کرتے دوسروں کوبھی دیتے ہیں اگر ان پر مصیبت آتی ہے تو وہ ٹل جاتی ہے۔