خیبر پختونخوا کی حکومت نے سیاسی جماعتوں کے سڑکیں بلاک کرنے پر جو پابندی لگانے کا فیصلہ کیا ہے وہ ایک نہایت ہی صائب اقدام ہے اس فیصلے کے تحت ضلعی انتظامیہ مشاورت سے اجتماعات کیلئے مقامات کی نشان دہی کرے گی اور بینرزجھنڈے سرکاری عمارتوں پر چسپاں نہیں ہوں گے اسی طرح ذاتی سکیورٹی بھی نہیں دی جاے گی جب بھی کسی سیاسی پارٹی کے جلسے کاپروگرام ہوگاتو سیاسی جماعت ضلعی انتظامیہ کو این او سی کے لئے درخواست جمع کرائے گی‘جلسے کی اجازت کی درخواست میں منتخب مقام‘ وقت‘قیادت کی فہرست بتانا ضروری ہوگا‘نیز وہ درخواست کے ساتھ ایک حلف نامہ بھی
جمع کرائے گی کہ کسی سڑک یا گلی کو بلاک نہیں کیا جائے گا۔ہم تو اس کالم کے ذریعے عرصہ دراز سے اس بات پر زور دیتے آ رہے ہیں کہ یہ بات تمام سیاسی جماعتوں کے مفاد میں ہو گی کہ وہ ہر شہر میں اپنے جلسوں کے انعقاد کے لئے ایک مرکزی جگہ کا انتخاب کر لیں کہ جہاں وہ جلسے کیا کریں اور جلسوں کے انعقاد کا وقت بعد از نماز عشا رکھیں تاکہ خلقت خدا کے روزمرہ کے معمولات زندگی میں رخنہ نہ پڑے‘ ویسے یہ بات ہماری سمجھ سے بالا تر ہے کہ سیاسی پارٹیاں آج کے انفارمیشن ٹیکنالوجی کے دور میں الیکٹرانک میڈیا سے فائدہ کیوں نہیں اٹھاتیں اس کے ذریعے تو وہ زیادہ موثر انداز میں عوام تک اپنا پیغام پہنچا سکتی ہیں اور اس طریقہ کار سے خلقت خدا کے معمولات زندگی بھی متاثر نہیں ہوتے اور نہ ہی کوئی امن و امان کا مسئلہ پیدا ہوتاہے‘ زیادہ دور کی بات نہیں ماضی قریب میں کیا سیاستدان
چوک یادگار‘ پشاور شہر‘ فوارہ چوک پشاور صدر‘لیاقت باغ راولپنڈی‘ موچی گیٹ لاھور وغیرہ جیسے مخصوص مقامات پر جلسے منعقد نہیں کیاکرتے تھے؟ اور کیا وہ اکثر نماز عشاء کے بعد منعقد نہیں ہوتے تھے‘ اس بہتر روایت کو دوبارہ بحال کرنے کی ضرورت ہے۔ان ابتدائی کلمات کے بعدہم ذکر کرنا چاہیں گے مودی سرکار کے اس اقدام کا کہ جس کے تحت اس نے مقبوضہ کشمیر میں 50لاکھ ہندوؤں کو کشمیر کے ڈومیسائل جاری کر دیئے ہیں یہ اگر مقبوضہ کشمیر میں مسلمانوں کو اقلیت میں بدلنے کی سازش نہیں تو پھر کیا ہے؟حیرت ہوتی ہے کہ اقوام متحدہ نے اس گھناؤنی سازش پر خاموشی کیوں اختیار کی ہوئی ہے؟