معیاری صحت کی سہولیات تک رسائی نہ ہونے کی وجہ سے ہر سال بڑی تعداد میں پاکستانی قابل علاج بیماریوں کا علاج نہ ہونے کی وجہ سے موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں اگرچہ صحت کی دیکھ بھال ”بنیادی انسانی حق“ ہے اور اِسے ”بنیادی انسانی حق“ ہی سمجھنا چاہئے‘ سماجی و اقتصادی پس منظر سے قطع نظر صحت کی سہولیات تک رسائی بلا امتیاز ہونی چاہئے۔ غریبوں خاص طور پر ماؤں اور بچوں جیسے پسماندہ اور کمزور طبقات کے لئے زیادہ ضروری ہے کہ اُن کی صحت کی دیکھ بھال کے لئے سرکاری وسائل مختص کئے جائیں اور صحت عامہ کی سہولیات میں وقت کے ساتھ توسیع ہونی چاہئے۔ جب زندگی بچانے والے علاج اور ادویات کی بات آتی ہے‘ تو یہ ہر مرد‘ عورت‘ خاندان کے لئے ایک مختلف تجربہ ثابت ہو سکتا ہے اور ایسا نہیں ہونا چاہئے کہ اگر کوئی شخص مالی طور پر ادائیگی کر سکتا ہے تو صحت کی سہولیات پر صرف اُسی کا حق ہو۔ توجہ طلب ہے کہ ایسے ہسپتال اور انسانیت دوست تنظیمیں (جیسا کہ الخدمت) موجود ہیں جو خیرات کے طور پر مفت یا کم قیمت میں طبی دیکھ بھال فراہم کرتی ہیں لیکن
یہ بڑھتی ہوئی آبادی کی ضروریات کے لئے کافی نہیں ہے اگرچہ پاکستان میں صحت عامہ کو یکساں سرکاری توجہ دینے میں کچھ پیش رفت کی گئی ہے لیکن یونیورسل ہیلتھ کوریج تک صرف 52فیصد آبادی کو رسائی حاصل ہے یعنی تمام تر سرکاری دعوؤں کے باوجود بھی نصف کے قریب آبادی کو صحت کی یکساں سہولیات تک رسائی حاصل نہیں ہے۔ حکومت یونیورسل ہیلتھ کوریج کو بڑھانے کا منصوبہ بنا رہی ہے اور اگرچہ اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ بہت ہی اہم پیش رفت ہے لیکن اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ آبادی کا ایک بڑا حصہ ’زندگی بچانے والے علاج تک رسائی‘ سے محروم ہے اور صرف پیسہ ہی زندگی کی ضمانت ہے۔یونیسیف کے مطابق پاکستان میں نوزائیدہ بچوں کی 75فیصد اموات کم کی جا سکتی ہیں کیونکہ بچے ایسے امراض سے مر رہے ہیں جو قابل علاج ہیں اور ہر سال تقریباً اکیانوے ہزار بچے نمونیا اور 53ہزار اسہال (ڈائریا) کی وجہ سے موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں! حفاظتی ٹیکوں کی خدمات بھی بہت سے بچوں تک نہیں پہنچ پاتیں جبکہ بارہ لاکھ ایسے بچوں کا انکشاف ہوا ہے جنہیں خسرہ سے بچاؤ کے قطرے نہیں پلائے جا سکے اور یہ بات اپنی جگہ تشویشناک ہے کہ پاکستان میں پولیو اب بھی عام ہے۔ یہ حکومتی اعداد و شمار اِس حقیقت کی عکاسی (بیان) کر رہے ہیں کہ جب صحت کی دیکھ بھال اور اِس کے نتائج کو بہتر بنانے کی بات آتی ہے تو متعلقہ سرکاری اداروں کو چاہئے کہ وہ معاشرے کے زیادہ مستحق طبقات اور بالخصوص بچوں اور خواتین کی صحت کو ترجیحات کا حصہ بنائیں۔ مہنگائی کے ساتھ علاج معالجے اور
صحت کی دیکھ بھال کے اخراجات بڑھ رہے ہیں اور گزشتہ دو سالوں کے دوران صحت کی دیکھ بھال کی لاگت میں تین گنا سے زیادہ اضافہ ہو چکا ہے۔ اِسی طرح امراض کے تشخیصی مراحل (لیبارٹری ٹیسٹوں) کی لاگت میں بھی سو فیصد سے زیادہ اضافہ ہو چکا ہے‘ جس کا مطلب ہے کہ بہت سے لوگ اپنی بیماری کی تشخیص کروانے کی مالی سکت نہیں رکھتے اور وہ بیماری کا اندازوں سے علاج کر رہے ہوتے ہیں جس کی وجہ سے صحت یابی کی شرح کم ہے! پاکستان میں ہر شخص پر سالانہ پندرہ ڈالر خرچ ہو رہے ہیں جبکہ عالمی معیار اٹھائیس ڈالر فی کس ہے۔ اگر قومی و صوبائی فیصلہ ساز صحت عامہ سے متعلق سہولیات کو وسیع پیمانے پر جاری رکھنا چاہتی ہے اور اِس کے ذریعے غیر ضروری جانی نقصانات بھی روکنا چاہتی ہے تو اِسے چاہئے کہ صحت کے لئے زیادہ رقم مختص کرے۔ علاج معالجے کی ضرورت بڑی ہے لیکن عوام کے پاس وسائل کی کمی ہے اور ایسی صورت میں اُنہیں امراض و حالات کے رحم و کرم پر چھوڑنا کسی بھی صورت (اخلاقی و آئینی طور پر) مناسب نہیں ہے۔