اب تو انٹر نیٹ کا زمانہ ہے۔ جس بندے کی جس وقت مرضی چاہے گی وہ اپنے پسند کے وقت کی خبریں لگا کر سن لے گا۔ایسے میں فلم بین کہاں سے آئیں گے۔ہر جگہ ہر گلی کوچے میں بچے بچے کے ہاتھ میں موبائل ہے اور کم از کم ساڑھے تین سو کا ہفتہ واری نیٹ پیکیج ہے‘اس لئے وہ اس نیٹ سے بھرپور استفادہ کرتے ہیں‘ کوئی خبریں کوئی ڈرامہ کوئی خوفناک فلمیں دیکھ رہا ہے۔غرض اپنی پسند کی تفریح دیکھتا ہے‘پہلے تو جو ٹی وی دکھلاتا تھا اور جو فلم میں دکھلایا جاتا تھامجبوری کے عالم میں وہی دیکھتے تھے مگر اب تو نیا زمانہ نئے صبح شام ہیں ہر جا جہانِ دیگر ہے۔جس جگہ چاہو وہاں سے دیکھ لو کتاب کہانی ہو یا کوئی داستان ہو یا کچھ بھی ہو بس یہ ہے کہ آسانی سے دستیاب ہے۔آ ج کل تو نیٹ پر بھی ٹرینڈ چل نکلا ہے کہ پبلک ٹک ٹاک کو زیادہ پسند کرتے ہیں اتنا وقت کس کے پاس ہے۔ ہاں خبروں کی بھی ہیڈ لائن دیکھتے ہیں۔وہ لوگ سنیک ویڈیو اور لائیکی اور ٹک ٹاک پر تیس سیکنڈ کی مزاحیہ ویڈیو دیکھ کر زیادہ خوش ہوتے ہیں۔ یا تو لوگ زیادہ غمزدہ ہیں اور ٹک ٹاک سے دل بہلاتے ہیں اور ہنستے ہیں ہنساتے ہیں اور ٹک ٹاک باربار دیکھتے ہیں۔ لاہور کے ایور نیو سٹوڈیو کی کیا بات کریں یہاں تو ہر گھر میں سٹوڈیو کھلا ہوا ہے۔ لڑکیاں بالیاں اور لا ابالی نوجوان اپنے بہن بھائیوں میں بیٹھ کر ٹک ٹاک بناتے ہیں اور اپنی آئی ڈی پر پھینک دیتے ہیں ان کے وویور پیداہونے لگتے ہیں اور ساتھ فالوور بھی آن موجود ہوتے ہیں۔جتنا زیادہ ٹک ٹاک دو گے اتنا آپ کی وقعت بڑھے گی۔کروڑوں ٹک ٹاک موجودہیں۔جن میں کروڑوں ہی قابلِ اعتراض ہیں جن کو پچھلے دنوں ٹک ٹاک کے حکام نے ڈیلیٹ کردیا ہے۔اس حد کہ ہر چیز کا اختیار عوام کے پاس آ جائے تو اس مووی کاکیا معیار ہوگا۔مگر ٹک ٹاک اگر سلیقے سے دیکھی جائے او رہر ٹک ٹاک نہ دیکھیں تو مزے کی چیز ہے اچھی انٹر ٹینمنٹ ہے۔فلم سٹوڈیو میں تو تیار ہونا پڑتا ہے۔ٹی وی کے سٹوڈیو میں میک روم میں گھنٹوں بیٹھ کر اپنا گیٹ اپ درست کریں گے مگر موبائل پرتومیک اپ کے نام سے سب کچھ موجود ہے۔اتنا کہ دیکھنے والے کودھوکا دینا پل جھل کا کام ہے۔کمپیوٹر گرافکس اور موبائل شیڈز سے مووی کو اتنا پر کشش بنا دیا جاتا ہے کہ دیکھنے والا آدھ منٹ کی ویڈیو کو درجنوں بار دیکھتارہتا ہے اور دوسروں کو شیئر بھی کرتا ہے۔ہر مووی میں تو قابلِ اعتراض مواد نہیں
ہوتا۔اکثر ٹک ٹاک قابلِ توجہ اور ہنسنے ہنسانے کامواد لئے ہوتی ہیں۔یہ انسان کی فطرت ہے کہ وہ اختصار کی جانب جاتا ہے۔پہلے ہزاروں صفحات کی داستانیں تھیں جو کئی دنوں تک لوگ پڑھتے رہتے تھے۔ پھر ڈھائی تین سو صفحات کے ناول آ گئے ۔پھر جب آدمی کے پاس پھر بھی وقت نہ رہا تو تین پیج کا افسانہ آگیا۔ پھر بھی ان کے پاس وقت کمی آڑے آئی توایک صفحہ کی کہانی افسانچہ آ گئی۔اب جانے آگے کیا کیا ہونے والا ہے اور کیا کیا آنے والاہے۔اب تو ٹک ٹک دیکھنے والے بھی خوش ہوتے ہیں اور بنانے والی خواہ بچیاں ہیں یا بچے ہیں وہ بھی شادمان رہتے ہیں۔گھر کے کمرے میں اپنا سٹوڈیو بنا لیا او ردو تین گھنٹوں میں تین موویاں تیس تیس سیکنڈ کی بن جاتی ہیں۔ باہم مشورے سے
ڈائیلاگ یاد کئے جاتے ہیں ان کو رٹا لگایا جاتا ہے پھر مووی بن جائے تو اس کو آن ایئر بھیج دیا جاتا ہے۔ایک دنیا ہے جو اس کام میں جُتی ہوئی ہے مگر اس میں بھی ٹیلنٹ کام کرتا ہے۔ہر آدمی ٹک ٹاک تو بنا لے گا مگراس کو قبولیت نہیں ملتی لیکن بعض افراد ٹک ٹاک کے حوالے سے بہت مشہور ہو جاتے ہیں کیونکہ ان میں ٹیلنٹ ہوتا ہے ہاتھ پاؤں ہلانا اور ڈائیلاگ ڈیلیوری اس طرح لپ سنکنگ کر کے ادا کرنا کہ دیکھنے والے حیران رہ جاتے ہیں۔جیسے گھر میں صبح یہ ٹینشن بھی چلتی ہے کہ آج کیا پکے گا‘ایسی ہی ٹک ٹاکر بہنیں ہوں یا بھائی ہو ں آپس میں اکٹھے ہوکر ٹک ٹاک بناتے وقت اس بات پرسوچ بچار کرتے ہیں کہ آج کی ٹک ٹاک میں کیاپیش کرنا ہے۔اس کے لئے ان کو نیٹ کا اچھا خاصا ہزاروں ایم بی کاپیکیج درکار ہوتا ہے کہ وہ فلموں کے ڈائیلاگ تلاش کریں۔وہ اسی کوشش میں بہت کچھ تلاش کر کے ان میں سے انتخاب کرتے ہیں۔ ایک ٹک ٹاک بنی تو اس میں غلطی ہوگئی تو ٹی وی ڈرامہ کی طرح کٹ کر کے وہ تیس سیکنڈ کاکلپ دوبارہ بنایا جائے گا۔اگر بن جائے تو اس کو اپنی آئی ڈی پر پھینکنے سے پہلے گھرکے دو چار بندوں کو منظوری کے لئے دکھلاناپڑتا ہے۔میرا مقصد یہ ہے کہ ہر آدمی ٹک ٹاک بنابھی نہیں سکتا اور بنالے تو ہر ٹک ٹاک نیٹ پر دیا بھی نہیں جاتا کیونکہ ٹک ٹاک میکر کو یہ اندازہ ہو جاتا ہے کہ یہ ٹک ٹاک کلِک نہیں کرے گا۔ مگرگھرمیں کوئی بڑا ہو جو ان کو گائیڈ کر سکے تو یہ ان کے لئے بہت بھلی بات ہے۔اس تمام بحث کا مطلب یہ نہیں کہ ٹک ٹاک یا دیگر نت نئے ذرائع ابلاغ ٹی وی کا متبادل بن چکے ہیں بلکہ ٹی وی تو کیا ریڈیو بھی بہت سارے ممالک میں کلیدی اہمیت کا حامل ہے اس طرح ٹی وی بھی اپنی حیثیت کو برقرار رکھے گا یہ الگ بات ہے کہ ساتھ بہت سارے نت نئے تفریح کے ذرائع سامنے آجائیں گے۔