چھوٹوں پر شفقت،بڑوں کی عزت،سلام میں سبقت،لبوں پر مسکراہٹ جیسی صفات کو آج کل کے پُرآشوب دور میں اگرمجسم صورت میں یکجا دیکھنا ہوتاتوہم استاد الاساتذہ سید غفار مرحوم کی طرف دیکھا کرتے تھے۔آپ سراپا انکسار اور سراپا تواضع والی شخصیت کے مالک تھے۔خیبر پختونخواکے محکمہ تعلیم میںہزاروں طلبا کو پڑھایاآپ کے شاگردوں نے استاد ہونے کا شرف پایا کئی شاگرد ملک کے اندر بڑے عہدوں پرفائز ہوئے آپ کے عجزوانکسار میں کمی نہیں آئی آپ سابق ریاست چترال کے مرکزی گاﺅں سنگور کے رہنے والے تھے اباو اجداد نے وادی اویر سے نقل مکانی کرکے یہاں رہائش اختیار کی1937ءمیں آپ نے ایک دیندار گھرانے میں شیرولی خان کے ہاں آنکھ کھولی سٹیٹ ہائی سکول چترال سے تعلیم حاصل کرنے کے بعد پیشہ تدریس سے وابستہ ہوئے،دوران ملازمت ہری پور جاکر سینئر ورنیکلرٹیچر کی تربیت حاصل کی ۔فارسی ،اردو،مطالعہ قدرت اور معاشرتی علوم پڑھاتے تھے1965سے1970تک 5سال ان کے سامنے زانوئے تلمذتہہ کرنے کازرین موقع ملا۔ آپ نصابی کتاب کے سبق سے بڑھ کراداب زندگی پڑھاتے تھے ۔آج کل ہنر ہائے زندگی ،لائف سکلز کابڑا چرچا ہے۔ان کاکمال یہ تھا کہ اداب زندگی ایٹی کیٹس آف لائف کے ساتھ نام لئے بغیر ہنرہائے زندگی پڑھاتے تھے ۔کتاب کھول کر جوکچھ پڑھاتے اُس سے زیادہ لطف ان کی اُن باتوں کا آتا تھا جوکتاب بندکرکے بتایا کرتے تھے ۔فارسی کتاب کے پہلے سبق کے اختتام پرانہوں نے کتاب بند کرکے شیخ سعدیؒ کی ایک حکایت بیان کرتے ہوئے کہا شیخ سعدیؒ کہتے ہیں میںنے ایک دن حمام میں دیکھا کہ کیچڑ سے خوشبو آرہی ہے میں نے پوچھا یہ خوشبو تم نے کہاں سے حاصل کی ہے۔ کیچڑ نے کہا میں ناکارہ ساایک گارا تھا پھول کی صحبت نصیب ہوئی تو خوشبو میری ہم سفربنی۔
حکایت سنانے کے بعد استاد محترم نے کہا صحبت کااثر ہوتا ہے اچھے لوگوں کی صحبت میں بیٹھو گے تونیک بنوگے نیک نامی کماﺅگے۔ بُرے لوگوں کی صحبت میں بیٹھوگے توبُرے لوگوں میں تمہارا شمار ہوگا۔ بدنامی گلے پڑجائیگی۔ میں نے ان کی وفات پریہ بات ان کے ہم مکتب پروفیسر اسرار الدین کو بتائی توانہوںنے کہا ہم گاﺅں سے ملکر 2کلومیٹر دور اپنے سکول جایا کرتے تھے ۔سفر پیدل ہوتا تھا ۔پانچویں چھٹی جماعت سے ان کا معمول تھا کہ راہ چلتے ادھر اُدھر کی باتوں سے ہٹ کرہمیں حدیث پاک سنایا کرتے تھے۔ چہل احادیث ان کو زبانی یادتھے۔ ان کے ایک ہونہار شاگرد کرنل سردار محمد خان نے بتایا کہ ہم نے ان سے جوکچھ سیکھا وہ زندگی میں قدم قدم پرہمارے کام آیا ان کے ایک شاگرد نے مئی1965کاواقعہ سنایا چھٹی جماعت کے کمرے میں انگریزی کا استاد ابھی نہیں آیا تھا۔ لڑکے شور مچارہے تھے سید غفا رصاحب اچانک کمرے میں داخل ہوئے ۔شورتھم گیا توپوچھا کون شورکررہاتھا؟دوتیز طرار لڑکوں نے ایک عاجز اور مسکین لڑکے کانام لیا۔ استاد محترم نے کہا یہ عاجز ومسکین لڑکا بڑا آدمی بنے گا۔۔راوی کہتا ہے کہ استاد محترم کی پیش گوئی حرف بحرف
درست ثابت ہوئی۔ سٹیٹ ہائی سکول چترال کا وہ زمانہ سنہرا زمانہ تھا غلام عمر سکول کے پرنسپل تھے وزیرتعلیم ریاست چترال محمد جناب شاہ سال میں دوبار سکول کا معائنہ کرتے تھے۔ استاد شوکت علی،استاد حضرت اللہ،استاد میرفیاض،استاد حکیم خان،مولانا محمد مجید،مولانا صاحب الزمان ، مولانا محمد یوسف،استاد نورعلی شاہ،استاد عمر حیات‘استاد سکندر حیات،استاحسین اللہ، استاد میرگلاب شاہ،استاد عبدالباری،استاد محمد زمان ‘ استاد رحمت ولی اور دیگر اساتذہ کے دم قدم سے سکول میں رونق تھی۔ سکول کی لائبریری سے ہم کتابیں لیا کرتے تھے استاد سید غفار ہمیںدوباتوں کی تاکید کرتے تھے۔ وہ کہا کرتے تھے کہ میں جوکچھ پڑھاتاہوں یہ مکمل کتا ب نہیں بلکہ کتابوں کی طرف اشارہ ہے۔ اگر میں نے شیخ سعدیؒکاسبق پڑھایا توتم مصنف کی پوری کتاب ڈھونڈ نکالو اور پڑھو اگر میں نے غالب ،حالی،سرسید اورا قبال کاسبق پڑھایا توتم ان کی پوری کتابیں پڑھ کراپنے علم میں اضافہ کرو‘1997ءمیں ریٹائرمنٹ کے بعد انہوں نے فریضہ حج ادا کیا اپنی زمین مسجد کے لئے وقف کرکے اولاد کوبتایا کہ دنیا فانی ہے کفن میں جیب نہیں ہوتی قبر میں لاکر نہیں ہوتا،وفات کے سال سے14سال پہلے 2009میں ایک مختصر رقعہ لکھ کرصندوق میں رکھا رقعے کی عبارت یہ ہے” اس میں جوکچھ کپڑے رکھے ہوئے ہیںیہ سارے آخری سفر کے لباس کےلئے محفوظ ہیں نیچے دستخط کے ساتھ10اکتوبر 2009کی تاریخ دی گئی ہے یکم آگست2023کے دن آپ کی وفات ہوئی، اللہ پاک آپ کی روح پرفتوح کواگلے جہاں کی دائمی نعمتوں سے آسودگی بخشے(آمین)۔