عوامی نمائندے

ایسے حالات میں کہ جب ایک بار پھر انتخابی عمل کیلئے تیاریاں جار ی ہیں اور جلد یہ بدیر یہ مرحلہ بھی طے ہونا ہے ،عوام کو اپنے نمائندے چننے میں بالغ نظر کا مظاہرہ کرنا چاہئے اور ووٹ کی طاقت سے وہ ملک و قوم کی حالت بد ل سکتے ہیں۔ کچھ حلقے ایسے بھی ہیں کہ جہاں ایسی شخصیات موجود ہیں جنہوں نے سیاست کو عوامی خدمت کا ذریعہ بنایا ہوتا ہے اور وہ ہر دور میں مقبول بھی رہتے ہیں،سچ تو یہ ہے کہ جن لوگوںنے سیاست کو عوامی خدمت کا ذریعہ بنایا ہوتا ہے ان کوالیکشن میں کامیاب ہونے کے واسطے کسی سیاسی پارٹی کے سہارے کی قطعاًضرورت نہیں پڑتی بلکہ الٹا سیاسی جماعتوں کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ وہ ایسے لوگوں کوٹکٹ دیں، صوبہ خیبر پختونخوا کے جنوبی اضلاع کے لوگ اس حوالے سے خوش قسمت ہیں کہ وہاں پر ایسے سیاسی خاندان موجود ہیں ا ن میں سے ایک سیف اللہ خان خاندان ہے۔ جنہوںنے بنوں اور لکی کے علاقوں میں قابل قدر ترقیاتی کام کئے ہیں اور ایسے کئی میگا پراجیکٹ ہیں جن کی تکمیل کا کریڈٹ ان کو جاتا ہے۔ خیبر پختونخوا کے جنوبی علاقوں میں انہوں نے وہاں کے عام آدمی کیلئے جو ترقیاتی کام کئے وہ اپنی مثال آپ ہیں۔ ایک دنیا جانتی ہے کہ لکی مروت ایک لق و دق ریگستانی علاقہ ہے وہاں کے باسی اگر ایک طرف پینے کے شفاف پانی کو ترستے تھے تو دوسری طرف وہاں زراعت نہ ہونے کے برابرتھی، تاہم سیف اللہ بردار ن اور ان جیسے دوسرے سیاستدانوں کی کوششوں سے جو سیاست کو عوامی خدمت کا ذریعہ بنائے ہوئے ہیں ، اس علاقے کے مسائل وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ حل ہوتے گئے ہیں ۔اب کچھ تذکرہ دیگر بیان الاقوامی امور کا کرتے ہیں۔ جہاں دنیا ایک بار پھر سرد جنگ کی لپیٹ میں آتی نظر آرہی ہے اور ایشیاءسے لےکر یورپ اور افریقہ تک عالمی طاقتوں کے درمیان طاقت کی رسہ کشی پھر شروع ہے ۔ یہ جو نائجر میں فوجی انقلاب آیا ہے اس میں بھی ایک طرف روس ہے تو دوسری طرف فرانس اور امریکہ ہیں‘ نائجر میں اقتدار سنبھالنے والے فوجی حکمران روس کے حامی ہیں اور انہوںنے ملک سے فرانس کو یورنیم کی درآمد روک دی ہے ۔ اس افریقی ملک میں یورنیم کے بڑے ذخائر ہیں۔اب فرانس اور امریکہ افریقی ممالک کی تنظیم کی مدد سے نائجر میں فوج کشی کیلئے حالات تیار کر رہے ہیں، تاہم ملک کے فوجی حکمرانوں نے مزاحمت کا اعلان کیا ہے اور یہ خبریں بھی آرہی ہیں کہ انہوںنے روس سے مدد طلب کی ہے ۔ واضح رہے کہ روس کی پرائیویٹ آرمی ویگنر گروپ پہلے ہی افریقہ کے کئی ممالک میں موجود ہے ‘اور عین ممکن ہے کہ نائجر میں بھی روس کی یہ فوج آجائے۔اس طرح یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ روس ایک بار پھرسپر پاور کی حیثیت سے اپنے اثر رسوخ میں اضافے کیلئے پر تول رہا ہے اور وہ اس مقصد میں کافی حد تک کامیاب بھی ہے ۔ روس کے صدر پیوٹن ایک بار پھر ان تمام ممالک کو روس کے زیر اثرلانے کےلئے منصوبہ بندی کر رہا ہے جو کسی وقت سوویت یونین کا حصہ تھے ان کو تمام وسطی ایشیائی ممالک بھی شامل ہے ۔ یہ جو یوکرائن کے ساتھ روس کی لڑائی ہے تو اس میں امریکہ واضح طور پر فریق بنا ہواہے اور یوکرائن کو مجبور کر رہا ہے کہ وہ روس کے ساتھ جنگ کو طول دے تاکہ معاشی طور پر روس کو مشکلات کا شکار بنایاجا سکے۔