نواب شاہ کے قریب خوفناک ٹرین حادثہ جس میں ہزارہ ایکسپریس کے تیس سے زائد مسافر جاں بحق اور درجنوں زخمی ہوئے ایک ایسا سانحہ ہے جس طرح کے حادثات بار بار دیکھنے میں آتے ہیں لیکن اِن حادثات کی روک تھام کے لئے اقدامات کارگر ثابت نہیں ہو رہے۔ یہ بات بھی اپنی جگہ اہم ہے کہ ہر حادثے کے بعد معمول کے مطابق تحقیقات کا اعلان کیا جاتا ہے اور بڑے حادثات کی صورت میں اپنے پیاروں کو کھونے والے خاندانوں یا زخمی ہونے والے مسافروں کے لئے نقد معاوضہ بھی دیا جاتا ہے لیکن ریلوے ٹریک کو بہتر بنانے میں سرمایہ کاری نہیں کی جاتی۔ اگر ریلوے ٹریک بوسیدہ ہیں اور ریلوے کے پاس ملازمین کی تنخواہوں اور پینشن کی ادائیگی کے بعد بمشکل مالی وسائل بچ پاتے ہیں تو عوام کی جانوں سے کھیلنے کا سلسلہ بند ہونا چاہئے۔پاکستان کی ناقص ریلوے لائنیں خاص طور پر خان پور اور کراچی کے درمیان کے حصے پر ٹرینوں کے پٹری سے اترنے کے واقعات اکثر ہوتے رہتے ہیں۔ اس سے قبل ٹرینوں کے پٹری سے اترنے‘ تصادم اور آگ لگنے کے واقعات میں بھی بھی درجنوں افراد ہلاک اور سینکڑوں زخمی ہو چکے ہیں۔ شاید ہی کسی کو یاد ہو کہ ماضی میں ہوئے حادثات و سانحات کے ذمہ داروں کو سزا دینے کے لئے جن تحقیقات کا حکم دیا گیا اُن کی انکوائری رپورٹ عام کی گئی ہو! تازہ ترین سانحہ ملک کے خستہ حال ریلوے انفراسٹرکچر کی وجہ سے ہوا ہے جسے جدید بنانے اور ریل خدمات کو وسعت دینے کی بات ایک عرصے سے ہو رہی ہے۔ حادثے کے فوری بعد وزیر ریلوے و ہوابازی خواجہ سعد رفیق نے کہا کہ تخریب کاری یا مکینیکل خرابی کے امکان سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ انہوں نے مزید کہا کہ حادثے کی ’بنیادی وجہ‘ کا تعین تحقیقات سے کیا جائے گا۔ ریلوے کے کچھ عہدیداروں نے راولپنڈی جانے والی ہزارہ ایکسپریس کے پٹری سے اترنے کا ذمہ دار ریلوے لائن کے ٹوٹنے اور ہاٹ ایکسل کا مسئلہ قرار دیا تاہم وفاقی وزیر نے وسائل کی کمی کو اس سانحے کی اصل وجہ قرار دیا تھا۔ درحقیقت پشاور اور کراچی کے درمیان ریلوے کے بنیادی ڈھانچے کی موجودہ حالت خراب ہے۔ مثال کے طور پر محکمہ ریلوے نے خان پور اور کوٹری کے درمیان تیس کلومیٹر طویل ٹریک کی بحالی کے لئے دوہزاراکیس میں چارسوستر ارب روپے کی درخواست کی تھی۔ یہ وہی مقام ہے جہاں سب سے زیادہ مہلک حادثات پیش آتے ہیں تاہم مذکورہ چارسوستر ارب روپے نہیں دیئے گئے کیونکہ سی پیک منصوبے کے تحت 9 ارب ڈالر کا ایم ایل ون منصوبہ جاری ہے اِس لئے پرانی ریلوے لائن میں سرمایہ کاری کو ’غیر ضروری‘ قرار دیا گیا۔اس میں کوئی تعجب کی بات نہیں کہ فیصلہ ساز ہمیشہ ریلوے کو بامنافع بنانے کی فکر میں رہتے ہیں جبکہ یکساں ضرورت مسافروں (صارفین) کی حفاظت اور سفری سہولیات بھی ہیں اور خلاصہ¿ کلام یہ ہے کہ ریلوے کے بنیادی ڈھانچے میں سرمایہ کاری کئے بغیر اِس محکمے کو منافع بخش ادارے میں تبدیل نہیں کیا جاسکتا۔ ایم ایل ون منصوبہ ریلوے کے نظام کو جدید بنانے کے لئے انتہائی اہمیت کا حامل ہے لیکن اس کے ساتھ مسافروں کی حفاظت بھی تو اہم ہے اور پہلی ترجیح یہی ہونی چاہئے کہ ریلوے کے موجودہ سفری نظام کو محفوظ بنایا جائے۔