جنرل فضل حق جب خیبرپختونخوا سابقہ صوبہ سرحد کے گورنر تھے تو سابقہ فاٹا کے اندر سڑکوں کے تقدس یعنی road sanctity کا بہت خیال رکھتے تھے ان کے نزدیک وہ پولیٹکل ایجنٹ اچھا ہوتا کہ جس کے دائرہ اختیار علاقے میں واقع سڑکوں پر آمد و رفت بلا روک و ٹوک جاری رہتی ۔ چونکہ سابقہ فاٹا کے خیبرپختونخوا میں انضمام سے پیشتر قبائلی علاقے میں اجتماعی قبائلی علاقائی ذمہ داری کے اصول کے تحت امن و عامہ کا نظام چلایا جاتا تھا ۔اس نظام کی موجودگی میں تمام سابقہ فاٹا میں کوئی بھی فرد سرکاری سڑک پر کوئی جرم سر زد کرنے سے پہلے دو مرتبہ سوچا کرتا تھا ۔ فاٹا کے علاقے کو بندوبستی علاقوںمیں ضم کرنا یقینا بہتر سو چ کے ساتھ اٹھایا گیا قدم ہے ، تاہم کیا ہی اچھا ہوتا کہ اگر ان تمام بقید حیات سرکاری اہلکاروں کی اس معاملے میں رائے لی جاتی جو مختلف ادوار میں فاٹا میں بطور پولیٹیکل ایجنٹ تعنیات رہے تھے۔جہاں تک سڑکوں کے تقاضوں کو مد نظر رکھنے کی بات ہے تواس ضمن میں ملک کی تمام سیاسی جماعتوں کو ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا ہو گا ۔کسی مسئلے کی طرف اگر کوئی حکومت کی توجہ مبذول کرانا چاہتا ہے تو کیا یہ ضروری ہے کہ وہ اس مقصد کیلئے روڈ بلاک کرے ۔کیا وہ اس کےلئے الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کا سہارا نہیں لے سکتا یہ تمام سیاسی جماعتوں کا فرض ہے کہ وہ اس ضمن میں قانون سازی کر کے روڈ بند کرنے والوں کیلئے ایسا قانون بنائیں کہ جو نا قابل ضمانت ہو۔ روڈ بلاک سے خلقت خدا متاثر ہوتی ہے۔ عام آدمی کے روزمرہ کے معمولات زندگی پر منفی اثرات پڑتے ہیں ،جان لیواامراض میں مبتلا مریض بروقت ہسپتال نہیں پہنچ پاتے ،طلبا و طالبات پرچے دینے کیلئے امتحانی مراکز میں نہیں پہنچ سکتے کہ جس سے ان کاسال ضائع ہو جاتاہے۔اب ذرا دیگر اہم امور کا جائزہ لیتے ہیں۔ گزشتہ دنوں جو ریل حادثہ پیش آیا ہے اس نے ایک بار پھر ریلوے کی زبوں حالی کو واضح کر دیا ہے۔1960 کے اوائل میں ملک کی زیادہ تر تجارتی نقل و حمل کا 75 فیصد ریلوے کے ذریعے ممکن ہوتا تھا لیکن پھر حکومت کی ترجیحات بدل گئیں اور ریلوے کے نظام سے توجہ ہٹالی گئی اس وقت کراچی سے لاہور جانے والا ٹریک بیشتر مقامات پر خستہ حالی کا شکار ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان ریلوے کے پاس 1950 سے 1955 تک مجموعی طور پر 8 ہزار 560 کلومیٹر روٹ تھا لیکن یہ اب کم ہو کر 7 ہزار 791 کلومیٹر رہ گیا ہے جبکہ 12 ہزار کلومیٹر ٹریک کم ہو کر 11 ہزار 881 کلومیٹر رہ گیا ہے۔ پاکستان ریلوے کے پاس آغاز میں کم و بیش 862 مختلف اقسام کے انجن تھے جو اب کم ہو کر کم و بیش 472 رہ گئے ہیں۔ پاکستان ریلوے کے پاس موجود 16 ہزار 159 گڈز ویگنز میں سے 9 ہزار 832 کے لگ بھگ ناکارہ ہو چکی ہیں۔ اسی طرح ریلوے کے پاس موجود 1 ہزار 822 مسافر کوچز میں سے 606 اپنی معیاد پوری کرچکی ہیں۔کراچی، لاہور سے پشاور جانے والے روٹ ایم ایل ون کے 2 ہزار 995 کلومیٹر روٹ پر 55 فیصد ٹریک خستہ حال ہے۔دستیاب معلومات کے مطابق گزشتہ چند برسوں میں ریلوے کو چھوٹے بڑے مختلف حادثات کا سامنا رہا ہے جس میں مسافر ٹرینوں کے آپس میں ٹکرانے، مسافر اور مال بردار ٹرین کے ٹکرانے، مسافر ٹرین کے پٹری سے اترنے، مال بردار گاڑی کے پٹری سے اترنے، ریلوے پھاٹک پر ہونے والے حادثات اور آگ لگنے جیسے دیگر واقعات میں 518 افراد زخمی ہوئے جبکہ 409 افراد جان کی بازی ہار گئے۔اب بھی وقت ہے اگر ریل کوچین، جرمنی اور دیگر ترقی یافتہ ممالک کی طرح نقل و حمل کا اہم ترین ذریعہ بنانا ہے تو اس کو جدید خطوط پر استوار کرنا ہوگا۔
اشتہار
مقبول خبریں
پشاور کے پرانے اخبارات اور صحافی
سید مظہر علی شاہ
سید مظہر علی شاہ
سٹریٹ کرائمز کے تدارک کی ضرورت
سید مظہر علی شاہ
سید مظہر علی شاہ
فرسودہ فائر بریگیڈ سسٹم
سید مظہر علی شاہ
سید مظہر علی شاہ
معیشت کی بحالی کے آثار
سید مظہر علی شاہ
سید مظہر علی شاہ
فوجداری اور ریونیو مقدمات
سید مظہر علی شاہ
سید مظہر علی شاہ
ممنوعہ بور کے اسلحہ سے گلو خلاصی
سید مظہر علی شاہ
سید مظہر علی شاہ
امریکہ کی سیاسی پارٹیاں
سید مظہر علی شاہ
سید مظہر علی شاہ
سعودی عرب کی پاکستان میں سرمایہ کاری
سید مظہر علی شاہ
سید مظہر علی شاہ
امریکی پالیسی میں تبدیلی؟
سید مظہر علی شاہ
سید مظہر علی شاہ
سموگ کا غلبہ
سید مظہر علی شاہ
سید مظہر علی شاہ