اقوام متحدہ کے حالیہ تین روزہ سربراہ اجلاس میں چند چونکا دینے والے حقائق سامنے آئے ہیں۔ پہلی بات دنیا میں 78 کروڑ لوگ بھوک کا سامنا کر رہے ہیں یعنی اُنہیں ایک وقت کا کھانا بھی میسر نہیں ہے۔ دنیا میں 46 کروڑ سے زیادہ لوگ کم وزن ہیں اور دنیا کی 2 ارب سے زیادہ آبادی ایسی ہے جو اپنی جسمانی ضرورت سے زیادہ کھانے پینے کی وجہ سے موٹاپے کا شکار ہے۔ موٹاپے کے شکار لوگوں کی آبادی دنیا کی کل آبادی کا 25 فیصد ہے اور یہ حقیقت اپنی جگہ توجہ طلب ہے کہ دنیا میں پیدا ہونے والی ایک تہائی خوراک ضائع ہو رہی ہے لیکن یہ بھوک کا شکار لوگوں تک نہیں پہنچائی جاتی۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے اِس موقع پر کہا ہے کہ وسائل کی کمی نہیں بلکہ دنیا وسائل کی غلط تقسیم کا شکار ہے۔ ورلڈ فوڈ پروگرام (ڈبلیو ایف پی) کے اندازوں سے پتہ چلتا ہے کہ کورونا وبا اور بعدازاں روس یوکرین جنگ اور موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے دنیا میں غربت اور بھوک کی شرح میں اضافہ ہوا ہے اور اِن تین محرکات کی وجہ سے 12 کروڑ سے زیادہ لوگ خط غربت سے نیچے چلے گئے ہیں۔ ایسے شواہد بھی موجود ہیں کہ جن سے معلوم ہوتا ہے کہ آنے والے سالوں میں خوراک کا بحران زیادہ تیزی سے بڑھے گا اور اِس کے منفی اثرات بھی دنیا پر زیادہ واضح ہوں گے۔ معروف معاشی جریدے اکانومسٹ کے انٹیلی جنس یونٹ کی جانب سے ایک خصوصی رپورٹ شائع ہوئی ہے جس کا عنوان ’موسمیاتی تبدیلی کا بحران: غیر متوقع مستقبل کو متاثر کرنے والے رجحانات کو سمجھنا‘ ہے۔ اِس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ خوراک کی بڑھتی ہوئی قیمتیں یورپ میں دیگر عوامل (توانائی کی زیادہ قیمتوں وغیرہ) کی وجہ سے افراط زر (مہنگائی) کا سبب بن رہی ہیں اور آنے والے دنوں میں آب و ہوا کی تبدیلی کی وجہ سے آنے والی آفات کم زرعی پیداوار کا سبب بنیں گی۔ اقوام متحدہ کے فوڈ اینڈ ایگریکلچر آرگنائزیشن (ایف اے او) نے چاول کی قیمتوں کے انڈیکس میں 2.8 فیصد اضافے کی اطلاع دی ہے۔ چاول کی برآمد پر بھارت کی پابندی کے بعد عالمی سطح پر چاول کی قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے۔ چاول کی عالمی برآمدات میں بھارت کا حصہ چالیس فیصد ہے۔ بھارت کی جانب سے چاول کی برآمدات کم کرنے کی وجہ یہ ہے کہ اندرون ملک چاول کی قیمتیں مستحکم رہیں۔ یہ سبھی حقائق جس ایک چیز کی طرف اشارہ کر رہے ہیں وہ یہ ہے دنیا کی بڑھتی ہوئی آبادی کسی نہ کسی صورت مشکل بنی ہوئی ہے اور اِس صورتحال میں ضروری ہو گیا ہے کہ ممالک بڑھتی ہوئی خوراک کی ضروریات پوری کرنے اور بھوک و افلاس جیسے بحرانوں سے نمٹنے کے لئے مل جل کر کام کریں۔ ترقی یافتہ ممالک جن کے پاس ترقی پذیر ممالک کی فصلوں کی پیداوار کو محفوظ بنانے کے لئے فنڈز اور ذرائع موجود ہیں انہیں ان ممالک کو سیلاب اور دیگر موسمیاتی تبدیلیوں سے بچانے اور تعمیر نو میں مدد کرنی چاہئے۔ پاکستان کی وزیر برائے موسمیاتی تبدیلی شیری رحمان نے بارہا نشاندہی کی ہے کہ موسمیاتی فنانس تک رسائی ترقی پذیر ممالک کے لئے ایک بڑا چیلنج ہے۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کا بھی یہی خیال ہے کہ ضرورت مند ممالک میں سالانہ پچاس ارب ڈالر کی تقسیم ان ممالک میں لوگوں کو خوراک کی فراہمی میں کلیدی کردار ادا کر سکتی ہے۔ جب تک دنیا غریب ممالک کے لئے خاطر خواہ فنڈز مختص کرنے پر سنجیدگی سے غور نہیں کرے گی‘ خوراک اور بھوک کے بحران سے نمٹا نہیں جا سکے گا۔ خوراک کے نظام کو زیادہ پائیدار طریقے سے منظم کرنے کی ضرورت ہے اور اِس سلسلے ترقی یافتہ ممالک کو پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک کی مدد کرنی چاہئے۔ زرعی ترقی کے بغیر غذائی تحفظ ممکن نہیں ہو گا اور بھوک کے اِس بحران سے نمٹنے میں ناکام ہونا بھی ممکن نہیں ہے۔ اِس حوالے سے عالمی ادارے کافی عرصے سے خطرے کی گھنٹی بجا رہے ہیں اور اب یہ اِن ممالک پر منحصر ہے کہ وہ اس مسئلے (چیلنج) کو کس حد تک قبول اور کس حد تک نظر انداز کرتے ہیں۔ دولت کی غیر مساوی تقسیم سے نمٹنے اور ماحولیاتی تبدیلیوں کے اثرات سے بچنے کے لئے دنیا کو لائحہ عمل (میکانزم) تشکیل دینا چاہئے جس نے مالی طور پر پاکستان جیسے کمزور ممالک میں غذائی عدم تحفظ کی صورتحال پیدا کر رکھی ہے۔