ہماری شادیاں ہوئی ہیں گلی محلوں میں رشتہ داروں کی فیملیوں میں ۔اس وقت تو خیر زمانوں پہلے کی بات ہے ۔اب تو ہمارے بال بچے خیر سے خود ماں باپ کے رُتبے پر پہنچ گئے ہیں۔ مگر ان زمانوں میں شادی بیاہوں پر گائے جانے والے گیت بھی تو اتنے زیادہ نہیں ہوتے تھے۔بہت ہوا تو درجن بھر گیت تھے جو فلموں میں شادیوں کے شادیانے بجتے ہوئے اپنی خاص ادا او رآوازں کے ساتھ ذہن و دل میں مقبول تھے۔ پھر کبھی تو ایک ہی نغمہ ہوتا جو ہر ولیمہ اور بارات پر سنائی دیتا ۔بارات سے ایک دن پہلے محفلِ موسیقی کی تان چھڑتی اور ڈھولک ٹھنکتی مردوں میں موسیقی کا پروگرام ہوتا اور شہر کے مشہو رقوال کے پاس اتنی بکنگ ہوتی کہ اس کے پاس وقت ہی نہ ہوتا۔ جیسے اب سیزن میں شادی ہالو ںکی بکنگ ہوتی ہے اس وقت قوالوں کی بکنگ ہوتی تھی۔ ۔ اس وقت سہرے پڑھے جاتے تھے۔دوست یار کسی خطاط سے سہرا لکھوا کر قطعہ کو فریم کر وا کر محفل میںپیش کرتے ۔مگر اس کے لئے بڑا دل گردہ چاہئے ہوتا تھا۔ کیونکہ سہرا پڑھنے والے کے پیچھے بہت آوازے کسے جاتے تھے اس کے لئے کسی ایسی شخصیت کا انتخاب کیا جاتا جو دوستوں یاروں کے سہرے پڑھتا اور یاروں کے کسے گئے آوازوں کے جوابات بھی چھوٹتے منہ دیتا ۔ایک یہ سہرا پڑھنے کی رسم تھی اور ایک وہ سہرا پڑھنے کی رسم مجھے یاد آ رہی ہے جو حضرت مولوی جی سید محمد امیر شاہ قادری کے دولت خانے پر یکہ توت میں ان کے صحن میں ہوئی تھی ۔ بیس سال سے زیادہ ہو گئے ہیں ۔ان کے فرزند نینی آغا کی بارات سے قبل سہرا پڑھنے کا موقع تھا ۔ تین سہر ے تھے صرف ایک ہی پڑھا گیا ۔یہ تینوں سہرے مولوی جی کی موجودگی میں پیش ہوئے۔یہ سہرے ان کے مریدین نے پیش کئے ۔ ان میں سے بس ایک ہی پڑھا گیا ۔ وہ سہرا پڑھنے کا شرف مجھ نیاز مند کو حاصل ہوا ۔اتفاق یہ ہوا سہرے تین تھے او رتین کے تینوں شعروں کے شاعر ہونے کا فخر بھی مجھے حاصل ہے ۔یہ بہت سنجیدہ محفل تھی جہاں بہت رش تھا ۔مگر خاموشی اتنی کہ سوئی پھینکو تو اس کی آواز سن لو۔ دوسری جانب دیگر لوگوں کے ہاں وہ شادیوں کی محفلیں ہوتی تھیں کہ جن میں کان پڑی آواز سنائی نہ دیتی تھی۔ہر شادی کا اپنا ایک گانا تھا ۔ جو یا تو نیا نیا سامنے آیا ہوتا یا پھر حال ہی آنے والی فلم کا ہوتا ۔پھر وہی گانا ہر شادی میں بجتاہوا سنائی دیتا ۔ان گانوں کی بھی اپنی ایک ہسٹری ہے ۔پھر اس کے بعد وہ وہ فلمیں آئیں اور وہ وہ شادی کے گیت سامنے آئے کہ توبہ ہی بھلی ۔بلکہ ا س حد تک اب تو یوٹیوب سے شادی بیاہ کے سینکڑوں گیت سپیکر کے ساتھ بنا تار اور کیبل کے دھوم دھڑکا کر کے سن لو ۔شہر کی چار دیواری کے اندر جس کو معلوم ہوتا کہ فلاں گھر میں محفل تازہ کی جائے گی تو شوقین حضرات وہاں گانے بجانے او رسننے کو پہنچ جاتے۔ بلکہ خود بھی گانے بھی گاتے۔ ٹی وی آرٹسٹ مرحوم افتخار قیصر بھی انھی دنوں میں ہر محفل موسیقی میں پہنچ جاتے ۔اپنے ہی لکھے ہوئے ہندکو کے گیت گاتے او ربڑے مزے کی فضا پیدا کر دیتے ۔ان دنوں کسی کو معلوم نہ تھا کہ یہ انجان شخص ایک دن بہت بڑا فنکار بنے گا۔اس کے علاوہ ہمارے دوست مرحوم یار دلبر پروفیسر لیاقت حسین کے بڑے برادر بھی تھے جو گلوکاری کے بہت رسیا تھے۔ بلکہ لیاقت مرحوم بھی یہ شوق کبھی کبھار فرما لیتے تھے۔ ان کے بھائی اقبال بھی اب دنیا میں نہیں جو ہر محفل میں پہنچ کر اپنی آواز میں گیت گاتے اور ایک سماں باندھ دیتے تھے۔بس شوق شوق کی بات ہے ۔ وہ چونکہ فلم انڈسٹری کی درمیانی مدت کا زمانہ تھا ۔اس لئے اس وقت فلم انڈسٹری پر ندیم کی فلموں کا راج تھا۔ اس عبوری دور کے گانے زبانِ زدِ عام تھے۔ اب بھی وہ گانے لگتے ہیں تو جیسے کلیجے کو کوئی مروڑتا ہے وہ گانے والے وہ سامعین یاد آجاتے ہیں ان کے چہرے آنکھوں تلے سے گھوم جاتے ہیں۔ہائے جو اب نہ رہے جو اب باقی ہیں تو اپنی زندگی کے گورکھ دھندوں میں اتنے پھنسے ہوئے ہیں کہ انھیں سر کھجانے کی فرصت بھی نہیں کہ وہ ان گانوں اور اس سے منسلک یادوں کو لے کرگھر کے کسی کونے میں بیٹھ جائیں اور یادِ ماضی کو تازہ کرنے کے سبب بنائیں۔ اب تو نہ وہ لوگ ہیں نہ وہ زمانہ ہے اور نہ ہی وہ اقدار ہیں ۔ ہر آدمی اتنا مصروف ہے کہ اگر فارغ نظر آتا ہے تو بس نظر ہی آتا ہے وہ فراغت سے نہیں کہ اس فرصت میں شاندار ماضی کی یادو ںکو تازہ کر سکے۔اتنا زیادہ عرصہ بھی تو نہیں گزرا عمروں کے گزر جانے کا کیا پتا چلتا ہے ” دوست دوست نہ رہا یار یار نہ رہا ۔زندگی ہمیں تیرا اعتبار نہ رہا “ ۔ ہائے وہ وہ چہرے تہہِ خاک جا کر رُوپوش ہو گئے ہیں کہ ” اب جن کے دیکھنے کو آنکھیں ترستیاں ہیں“۔ یہ چالیس پل تو نہیں بلکہ غور کریں تو پل دو پل ہیں ۔