انسانیت کی باتیں

مغربی ممالک کی سیاحت کے دوران میںنے نوٹ کیا ہے کہ مغرب میں سچ بات کہنے کو ترجیح دی جاتی ہے‘ یا پھر ان کے پاس ایسے کوئی معاملات نہیں ہوتے جن پر جھوٹ بولنا ضروری ہو جائے‘ صاف اور سیدھی بات کہنا اور ایسا ہی رویہ مخالف سے بھی امید رکھنا ان کی بہت بڑی خوبی ہے‘ دوسروں کی مدد کرنا بھی ان کی ایک بہترین عادت ہے‘ خصوصاً بزرگوں اور اپاہج لوگوں کیلئے ان کے دل کھلے ہوئے ہوتے ہیں‘ جانور چاہے آسمان پر اُڑ رہا ہے ان کی منڈیر پر بیٹھ گیا ہے یا پھر پالتو بن کر ان کے گھر میں رہتا ہے وہ سب سے پیار کرتے ہیں‘ پالتو جانوروں کو بیماری کی حالت میں بہترین ڈاکٹر کے پاس لے جاتے ہیں اوران کا علاج اپنے بچوں کی طرح کرتے ہیں‘ میں نے کبھی یہاں جانوروں کو سڑکوں‘ بازاروں اور پارکوں میں گھومتے پھرتے‘ اپنی بھوک مٹانے کیلئے کوڑے دانوں میں منہ ڈالتے ہوئے نہیں دیکھا‘ یعنی بلی‘ کتا لوگ پالتے ہیں ورنہ ان کی ذمہ داری ایسی پناہ گاہوں نے اٹھائی ہوتی ہے جو حکومتوں نے انہی مقاصد کیلئے بنائی ہوتی ہیں‘ گائے بکریاں گھوڑے بھینس تمام بڑے بڑے فارمز پر موجود ہوتی ہیں جن کے علاج‘ خوراک‘ نشوونما اور افزائش نسل کیلئے کام کیا جاتا ہے ایسے فارمز دیکھنے کا بھی دو ایک دفعہ دیکھنے کا موقع ملا‘ ہم ترقی پذیر ممالک کو ان معیارات تک پہنچنے کیلئے شاید طویل انتظار کرنا پڑے۔ کھانے پینے کے سٹورز اتنے وسیع و عریض ہیں جیسے5-4 ایکڑ زمین کا ایریا ہوتا ہے‘ وہاں کسی ایک فوڈ سٹور میں ضروریات زندگی کی ہر چیز خوبصورت‘ جاذب نظر ‘صاف ستھری اور قابل واپسی گاہک کیلئے دستیاب ہوتی ہے‘ دیکھنے اور ہاتھ لگانے کی کوئی پابندی نہیں‘ خرید کر گھر لے جائیں‘ اگر کوئی نقص ہو‘ پسند نہ آئے تو ایک مہینہ تک رسید دکھا کر واپس کر دیں‘ کوئی اتنا بھی نہیں پوچھے گا کیوں واپس کر رہے ہو‘ سبزی فروٹ ان کے اپنے نظام کے مطابق پونڈز میں ملتا ہے‘ دنیا کی کون سی سبزی اور فروٹ ہے جو اس برف زدہ ملک میں دستیاب نہیں ہے اب تو
 ہندوستان سے دیسی سبزی اور فروٹ وافر مقدار میں برائے فروخت موجود ہوتا ہے اسی طرح دیسی مصالحے‘ دیسی دوائیاں‘ گندم اور باقی تمام ایسی اشیاءجن کا خالص تعلق ہمارے علاقوں سے ہے اور وہ بھی انتہائی صاف ستھری‘دیدہ زیب‘ ڈبوں میں پیک‘ ان میں شامل اجزاءکا ڈبے پر صاف صاف لکھا ہونا اس بات کی دلیل ہے کہ ان کے ہاں ایسا قانون موجود ہے کہ باہر کے ممالک سے آنے والی اشیاءان کے شہریوں تک جب پہنچیں تو وہ صحت کی ضامن ہوں‘ اسکے باوجود صارف کے حقوق ہیں ایک معمولی سی بات پر صارف کمپنی کو ختم کروا سکتا ہے۔ خریدنے والا گاہک ہمیشہ ٹھیک ہوتا ہے اسی اصول پر تجارت کا پہیہ گھومتا ہے‘ فرنیچر کمپنی کے بڑے ٹرکوں کے ذریعے گھروں تک پہنچایا جاتا ہے‘ گھر لاکر اس کو پرزوں کی مدد سے جوڑا جاتا ہے‘ اس کے ساتھ لکھی ہوئی گائیڈ لائن موجود ہوتی ہے کیا مجال وہ گائیڈ لائن کسی طرح بھی غلط ہو‘ فرنیچر میں معمولی سا کریک بھی آجائے تو کمپنی اسکو واپس لینے کی پابند ہوتی ہے‘ لیکن شاذونادر ہی ایسا ہوتا ہے‘ دوسروں کی مدد کرنے کے پیمانے قانون نے مقرر کردیئے ہیں‘ ویسے تو آپ کسی کی مدد مسکرا کے احوال پوچھ کر، راستہ خالی کرکے‘ دروازہ پکڑ کر دوسروں کو بھی اندر آجانے کا موقع دیتے ہوئے اپنی جگہ کسی دوسرے کو دے دینے سے بھی کر سکتے ہیں لیکن اگر کوئی حادثہ ہو جاتا ہے‘ کوئی جھگڑا ہوجاتا ہے‘ کوئی ہمسایہ گھر میں لڑائی کے
 عالم میں ہے یا کوئی ایسی سیچوسیشن جو آپ کو مشکوک نظر آتی ہے تو آپ پولیس کو فوری طورپر کال کرتے ہیں تاکہ وہ موقع پر پہنچ کر ان تمام حادثاتی حالتوں کو رفع کرے۔ پولیس بھی کسی بیماری کی صورت میں پہلے مریض کی صحت کو فوقیت دیتی ہے بعد میں قانونی چارہ جوئی ہوتی ہے‘ پولیس دوست ہے آپ کسی بھی پولیس سٹیشن جا کر اپنی شکایت‘ اپنی ضرورت بے دھڑک بیان کر سکتے ہیں وہ آپ کو متعلقہ محکمے کے ذریعے پوری مدد کریگی‘ ترقی پذیر ممالک میں وہ طاقتیں جو خوف کی علامت ہوتی ہیں ترقی یافتہ ممالک میں وہ آپ کا ہاتھ پکڑ کے آپ کو سہولتیں مہیا کرتی ہیں‘ آئین اور قانون کی بالادستی ہے کوئی اپنے فرائض کی تشہیر نہیں کرتا‘ اگر وہ ڈیوٹی کرتا ہے تو یہ اسکی نوکری ہے اس کیلئے اسکو تنخواہ ملتی ہے ٹیلی ویژن اور ریڈیو ڈھونڈ ڈھونڈ کر لوگوں کے مسائل کو بیان کرتے ہیں اورمتعلقہ لوگوں سے ان کی جواب طلبی کرتے ہیں اگر وزیراعظم یا وزیروں کی خبریں دینا بھی پڑ جائیں تو ان کا نمبر کہیں درمیان میں یا آخیر میں ہوتا ہے ادارے بڑے ہوتے ہیں حکام ان کے ماتحت ہوتے ہیں ہر ادارہ اپنی ذات میں بھرپور ہوتا ہے اور اسکو اعلیٰ ترین کارکردگی دینے کیلئے کام کرنے کی عادت ہوتی ہے‘ زیادہ تر لوگ اکیلے رہتے ہیں جو اپنا کھانا ریستورانوں سے خریدتے ہیں اور گاڑیوں سے اتر کر گھروں کی طرف جا رہے ہوتے ہیں‘ کینیڈا میں کوئی کام بھی چھوٹا یا بڑا نہیں ہوتا ہر کام عظیم ہوتا ہے اگر کوئی صفائی ستھرائی کاکام کرتا ہے تو وہ اتنا ہی قابل عزت ہے جتنا کسی کمپنی کا مالک ہوتا ہے اس لئے کوئی شخص اپنا کام بتاتے ہوئے جھجھکتا نہیں بڑے آرام سے بتا دیتا ہے کہ کام کرنا ضروری ہے بے روزگار کیلئے حکومت بے شمار مواقع فراہم کرتی ہے جس سے وہ رات کو بھوکا نہ سوئے‘ان ممالک کا موازہ جب اپنے ہاں موجود حالات سے کرتے ہیں تو کاش کے الفاظ ہر وقت لبوں پر رہتے ہیں۔