ایک نہایت ہی صائب فیصلہ

وزیراعظم کا یہ فیصلہ نہایت ہی صائب فیصلہ ہے کہ وزیر اعظم کو ملنے والے تمام تحائف کو شفاف انداز میں نیلام عام کیا جائے اور اس سے حاصل ہونے والی رقوم کو یتیم بچوں کی کفالت پر خرچ کیا جائے توشہ خانے میں موجود تحائف کے ڈسپوزل کا اس بہتر طریقہ کار ہوہی نہیں سکتا تھا ۔وزارت پٹرولیم نے یہ خوشخبری دی ہے کہ روسی تیل سے عام آدمی کو آئندہ آنے والے دنوں میں فائدہ پہنچے گا۔ مشرق وسطیٰ میں سعودی عرب اور ایران کے تعلقات فعال ہو گئے ہیں اس سے نہ صرف مشرق وسطیٰ بلکہ پوری دنیا کے امن اومان پرمثبت اثرات مرتب ہوں گے۔ اسی طرح یہ خبر بھی تسلی بخش ہے کہ چین یوکرائن کے سیاسی حل میں تعاون جاری رکھے گا ۔اس جملہ معترضہ کے بعد کچھ دیگرا ہم امو ر کا تذکرہ کرتے ہیں۔ عالمی منظر نامے پرچین اور امریکہ کی مسابقتی دوڑ جاری ہے اور دونوں مختلف حوالوں سے ایک دوسرے پر سبقت حاصل کرنے میں مصروف ہیں ۔چین اور امریکہ دنیا کی دو بڑی طاقتیں ہیں جن کے درمیان کئی امور پر مسابقہ آرائی جاری ہے اور کئی مسائل کے حوالے سے دونوں میں کشیدگی بھی پائی جاتی ہے۔ ان میں ٹیکنالوجی کا شعبہ اہم ترین ہے ۔ ایک تازہ ترین رپورٹ کے مطابقچینی ٹیکنالوجی میں امریکی سرمایہ کاری پر پابندی عائد کردی گئی ہے ۔چین کی سیمی کنڈکٹرز اور مصنوعی ذہانت کی صنعتوں میں امریکی شہریوں کو سرمایہ کاری کرنے کی اب اجازت نہیں ہو گی۔ وائٹ ہاس نے اس کے لئے قومی سلامتی کا حوالہ دیتے ہوئے پابندی کا فیصلہ کیا ہے۔امریکی صدر جو بائیڈن نے چین کی اہم ہائی ٹیک صنعتوں میں امریکی سرمایہ کاری کو روکنے اور ریگولیٹ کرنے کے لئے ایک ایگزیکٹو آرڈر پر دستخط کر دئیے۔ اس آرڈر میں سیمی کنڈکٹرز، کوانٹم انفارمیشن ٹیکنالوجیز اور مصنوعی ذہانت جیسے شعبوں کا احاطہ کیا گیا ہے۔ امریکی صدر نے اس حوالے سے کانگریس کو لکھے گئے اپنے خط میں کہا ہے کہ وہ چین کی پیش رفت کا جواب دینے کے لئے قومی ایمرجنسی کا اعلان کر رہے ہیں۔ انہوں نے لکھا کہ یہ قدم حساس نوعیت کی ٹیکنالوجیز اور ایسی مصنوعات جو فوج، انٹیلیجنس، نگرانی، یا سائبر سے چلنے والی صلاحیتوں کےلئے، بہت اہم ہے۔امریکی انتظامیہ کے سینئر عہدیداروں نے کہا کہ دانستہ طور پر یہ حکم اقتصادی مفادات کی بجائے قومی سلامتی کے اہداف سے مربوط ہے۔تاہم یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ دنیا کی دو سب سے بڑی طاقتوں کے درمیان ٹیکنالوجی میں برتری حاصل کرنے کی شدید دشمنی کے ساتھ ہی یہ فیصلہ ایک ایسے وقت کیا گیا ہے، جب امریکہ میں ہائی ٹیک مینوفیکچرنگ کو بحال کرنے کے لئے بائیڈن انتظامیہ جد و جہد کر رہی ہے۔ادھر واشنگٹن میں چینی سفارت خانے کے ترجمان نے کہا کہ انہیں اس خبر سے بہت مایوسی ہوئی ہے۔ یہ پابندیاں چینی اور امریکی کمپنیوں اور سرمایہ کاروں کے مفادات کو سنجیدگی سے نقصان پہنچائیں گی۔اس طرح دیکھا جائے تو اس وقت چین اور امریکہ کے درمیان مقابلہ جاری ہے اور دونوں ایک دوسرے سے آگے نکلنے کی بھرپور کوشش میں ہیں تاہم اس لحاظ سے چین کا پلڑا بھاری ہے کہ اس نے ایشیائ، یورپ اور افریقہ تمام براعظموں میں ممالک کے ساتھ اقتصادی شراکتوں کا ایک ایسا نظام قائم کیا ہے جس سے چین کے اثر رسوخ میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے ۔پاکستان کی خوش قسمتی ہے کہ اسے چین جیسا پڑوسی ملا ہے جس نے ہر مشکل میں پاکستان کی مدد کی ہے اور خاص طور پر ٹیکنالوجی کے حوالے سے چین کے تجربات سے پاکستان فائدہ اٹھا سکتا ہے جہاں تک امریکہ کا معاملہ ہے اس نے کبھی بھی پاکستان کو حقیقی معنوں میں ترقی سے ہمکنار کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں لی جبکہ چین نے سی پیک کی صورت میں ایسے منصوبوں کا ایک جال پھیلا دیا ہے جن کی تکمیل کی صورت میں نہ صرف پاکستان سے بیروزگاری کا خاتمہ ہو سکتا ہے بلکہ ملکی ترقی کا سفر تیز ہونے کی صورت میں عام آدمی کی زندگی کا معیار بھی بلند ہو سکتا ہے چین اور امریکہ کے درمیان ٹیکنالوجی کی دنیا میں مسابقت سے پاکستان کو فائدہ اٹھانا چاہئے اور زیادہ سے زیادہ چین کی ٹیکنالوجی کو پاکستان منتقل کرنے کے منصوبوں کو پروان چڑھانا چاہئے۔